وجود

... loading ...

وجود
وجود

مظلوم عوام کی آس

پیر 10 جولائی 2017 مظلوم عوام کی آس

پاناما لیکس کیس سے پہلے نوز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان پر کسی پاکستانی سیاست دان نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا یہ تو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم تھی جس نے دنیا کے سیاست دانوں کے پاناما میں آف شور کمپنیوںمیں اکاونٹ سامنے لائے تھے۔اس انکشاف میں وزیر اعظم کی فیملی کا نام بھی تھا۔ دنیا والوں نے تو احسن جمہوری طریقے سے اپنے اپنے معاملات طے کر لیے۔مگر وزیر اعظم نواز شریف نے اس کو طول دیا۔ اس کے بعد پاکستان کی اپوزیشن کو موقع ملا اور وزیر اعظم کے احتساب کی بات کی تھی۔اس پروزیر اعظم نے دو دفعہ الیکٹرانک میڈیا اور ایک دفعہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس کی وضاحت کی اور اپنے آپ اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ مقدمہ عدالت میں گیا اور عدالت عالیہ کے پہلے فیصلہ میں دو معزز ججوں نے وزیراعظم نواز شریف کو ان کے بیانات کی روشنی میں پاکستان کے آئین کی شق نمبر ۶۲۔ ۶۳ پر پورا نہ اُترنے پر عوامی عہدے پر نا اہل قرار دیا تھا جبکہ تین معزز ججوں نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ وزیر اعظم کو ساٹھ دن کا مزید وقت دیا جائے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر ایک جے آئی ٹی بنائی جائے جو خفیہ ادارے، احتساب بیورو، اسٹیٹ بینک اوردوسرے اداروں کے نمائندے پر مشتمل ہو جوتفتیش کر کے اپنی رپورٹ عدالت عالیہ کو پیش کرے گی اس کے بعد عدلیہ حتمی فیصلہ دے گی۔
عدالت نے خود اچھی شہرت رکھنے والے افراد کا سلیکشن کیا اور جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش شروع کر دی۔ لگتا ہے کہ پہلے فیصلہ پر نون لیگ کو ان کے قانونی مشیروں نے ضرور مشورہ دیا ہو گا کہ پہلے فیصلہ کو اگر سامنے رکھا جائے تو آخری فیصلہ بھی مکمل طور پر وزیر اعظم کے خلاف ہو گا اس پر نواز شریف کی حکومتی پارٹی نے سیاسی ڈرامہ بازی کی اور پہلے فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کر کے عوام کو بے وقوف بنایا کہ دیکھو ! سارے ججوں نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار نہیں دیا یہ ہماری جیت ہے اس پر ہم مٹھایاں تقسیم کر رہے ہیں۔ کیا خوب نرالی بات کی۔ بھائی دو ججز صاحبان نے نا اہل قرار دے دیا تو تین ججوں نے وزیر اعظم کو اہل قرار بھی تو نہیں دیا کہ آپ مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ صرف یہ کہا کہ ساٹھ دنوں کے اندر مزید تحقیق کر لی جائے تاکہ انصاف کے سارے تقاضے پورے ہو جائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ حکومت نے شروع دن سے شایدقانونی مشیروں کے کہنے پر دبے الفاط میں جے آئی ٹی پر اعتراضات کرنا شروع کر دیے تا کہ اس کو متنازع بنا دیا جائے اور عوام کے سامنے رونا رویا جائے کہ یہ جے آئی ٹی جانب دار ہے۔ حسین نواز نے کبھی کہا کہ دو ممبران ان کے خلاف ہیں عدالت میں درخواست بھی دی مگر عدالت نے اس درخواست کو یہ کہہ کرخارج کر دیا کہ کہ ان کا اعتراض صحیح نہیں۔ پھر بیان بازی کی جاتی رہی کہ بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو ۲۲ گریڈ کے ملازمین کے سامنے پیش ہو نا پڑا۔ کبھی کہا گہا کہ وزیر اعظم کے بیٹوں کو کیوں بلایا جارہا ہے۔کبھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعظم کی بیٹی جو قوم کی بیٹی ہے اس کو کیوں بلایا گیا۔ ایک وزیر نے کہا کہ اس کے گھرسوالات بھیج کر تفتیش کر لی جائے۔ ایک وزیر نے کہا کہ جے آئی ٹی جیمزبونڈ۰۰۷ ہے۔ جو بھی بیان دیکر جے آئی ٹی سے باہر آتا میڈیا میں پریس کانفرنس کرکے عوا م کو بتاتا رہتا کہ ہم پرالزام کیا ہے؟ہمارے ہاتھ صاف ہیں ۔ہم نے عوام کے پیسے میں کوئی کرپشن نہیں کی۔ ہمارے ذاتی کاروبار کا حساب کتاب کیوں پوچھا جارہا ہے؟ وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف پتلی تماشا اب نہیں لگنے دیا جائے گا۔
عمران خان کے بقول انہوں نے اس طرح پاک فوج اور عدلیہ پر تنقید کی ہے۔ ارے بھائی آپ عوامی عہدے پر فائز ہیں۔ جمہوریت کے تحت آپ سے ہر شہری کرپشن کے بارے میں سوال کر سکتا ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ سیاست میں آنے کے بعد ایک فیکٹری سے بیس بائیس فیکٹریاں کیسے بن گئیں؟آپ مغل شہزادوں کی طرح زندگی کیسے گزار رہے ہیں آپ کے خلاف عدالتِ عالیہ میں کرپشن کا مقدمہ ملکی قانون کے مطابق قائم کیا گیا آپ کو عدالت ِعالیہ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کرنا ہے۔ اس میںکون سی انہونی ہونی بات ہے۔ آپ نے بھی تو حقیقی اپوزیشن لیڈرعمران خا ن کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہو ا ہے۔اسے بھی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا اور اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کرنی پڑے گی۔ کیا اسرائیل کا وزیر اعظم پولیس کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش نہیں کر چکا ہے۔ ساری دنیا کے حکمرانوں پر جب عدالتوں میں مقدمات قائم ہوتے ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش توہونا ہی پڑتا ہے۔ اگر مریم صفدر صاحبہ کو جے آئی ٹی میں بلایا گیا تو کون سی بڑی بات ہے۔کیا مریم صاحبہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے زیادہ سیاسی قد کاٹھ رکھتی ہیں، ان کو عدالت میں بلایا گیا تھا اور وہ اپنے دو معصوم بچوںکو لیے ہوئے عدالت میں پیش ہوئی تھی۔ پاکستان کی عدالتوں میں ہر روز قوم کی بیٹیاں پیش ہو رہی ہے۔ اگر مریم صاحبہ پیش ہوئی توکیا ہوا۔ اگر مریم صاحبہ سیاست کریںگی توایسے معاملات تو پیش آتے رہیں گے۔ جے آئی ٹی نے ریکارڈ ٹیمپرنگ کی عدالت عالیہ میں شکایت کی۔تحریک انصاف والے کہہ رہے ہیں نواز حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس گیم ختم ہونے کا اشارا دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں نواز شریف کے جانے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوگی۔ سب سے پہلے احتساب مہم شروع کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق کہتے ہیں کہ نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے ایک دفعہ حاضری لگوا کر مظلوم شریف بننا چاہتے ہیں۔پاناما ا سیکنڈل حکمرانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے طرف سے بے آوازلاٹھی ہے۔ جب تک لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آتی احتساب جاری رہے گا۔ پاناما میں ملوث چھ سو لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے ۔ احتساب سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔ صاحبو!مسلم لیگ کی توانا میڈیا ٹیم نے اپنے پرانے طے شدہ پروگرام کے مطابق بالآخر اپنے چارسینئر وزرا کو میڈیا میںبلایا اور انہوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا کھل کر اظہار کر دیا گیا۔ وزرا ء صاحبان کہتے ہیں خفیہ اداروں کے ارکان پر پہلے بھی اعتماد نہیں تھا اب بھی نہیں ہے۔ اعلان کر دیا کہ اگر قطری شہزادے کے گھر قطر جا کر بیان نہ لیا گیا تو ہم جے آئی ٹی کی تفتیش اور عدالت عالیہ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔جسٹس (ر) وجیہ الدین صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ قطری شہزادہ شکار کھیلنے تو پاکستان آ سکتا ہے ۔ اپنے دوست کے حق میں گواہی دینے پاکستان نہیں آ سکتا۔ نون لیگ کے چار سینئروزراء نے کہا کہ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی ساری کارروائی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔ گارڈ فادر اور سسلین مافیا آزاد عدلیہ کے لیے جنگ نہیں لڑتے۔ انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان صاحب نے بھی حق ِدوستی نبھاتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی متنازع بن چکی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو تبدیل کر دیا جائے تو سب خیریت ہو جائے گی۔ دوسری طرف قطری شہزادے کو جے آئی ٹی نے تین خط لکھے کہ وہ قطر میں ہی پاکستان کے سفارت خانے میں اپنا بیان ریکارڈ کرائے مگر تینوں خطوط کے باوجودقطری شہزادے نے جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کیا۔ جبکہ قطری حکومت اس خط کے بارے میں کہہ چکی ہے کہ اس خط سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کے حضرات کہہ رہے ہیں کہ قطری شہزادہ مکر گیا ہے۔
میڈیا کے مطابق جے آئی ٹی نے بیرون ملک سے دستاویزی ثبوت حاصل کر لیے ہیں۔ نون لیگ نے فائنل فیصلہ آنے سے پہلے ہی اپنے طور پر شروع سے سوفیصد سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں فیصلہ ان کے خلاف ہی آنا ہے ۔ ایک سوچے سمجھے طریقہ کے مطابق وہ جی آئی ٹی میں پیش ہوتے رہے اور باہر نکل کر پریس کانفرنس کر کے اعتراض بھی کرتے رہے۔ اس طرع جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی شروع سے کوشش کی گئی۔ اس سے عوام کے سامنے یہ جواز پیش کیا جائے گا کہ عدالت نے یہ فیصلہ صحیح نہیں دیا اور بیس کروڑ عوام کے منتخب لیڈر کو ڈی سیٹ کیا گیا۔ صاحبو! پاکستان کے عوام میںیہ بات درست نہیں سمجھی جائے گی ۔ایک شہری پر کرپشن کا مقدمہ قائم ہوا ۔ وہ یہ نہیں بتا سکا کہ منی ٹریل کیسے ہوئی ۔صرف ایک خط پیش کیا گیا ۔ جس میں قطری شہزادہ کہتا ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے کہ میرے دادا صاحب نے میرے والد صاحب کو یہ بتایا تھا کہ نواز شریف صاحب کے والد صاحب نے ان کے کاروبار میں پیسے لگائے تھے۔ اس کاروبار کے منافع کے طور پر میں نے لندن کے دو فلیٹ ان کے نام کیے تھے۔ ایسا خط تو اس سے قبل بھی نواز شریف ہیلی کاپٹر کیس میں دبئی سے منگوا چکے ہیں۔ عدالت کو تو خط نہیں ٹھوس ثبوت چاہیے ہوتے ہیں۔ دیکھیں عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ جب ملک کے اداروں کے سارے سربراہ حکمرانوں کے طرف دار ہو جائیں ۔جب ملک کی سرحدوں پر ہمارا ازلی دشمن بھارت حملے کر رہا ہوں۔ جب حکمران عوام کے پیسے ہڑپ کر رہے ہوں اور دشمن ملک سے دوستی نباہ رہے ہوں تو مظلوم عوام کس کی طرف دیکھیں۔ عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کو کب انصاف ملے گا؟
٭٭…٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر