وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاناما لیکس کیس اور واویلا

جمعه 07 جولائی 2017 پاناما لیکس کیس اور واویلا

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے پاناما لیکس کا دنیا میں انکشاف کیا۔ جس میں دنیا کے سیاست دانوں نے اپنے ملک کے عوام کے پیسوں کو لوٹ کر یا کسی نے اپنی حلال کی کمائی کو قانون کے مطابق آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا تھاجس پیسے سے وہ تجارت بھی کر رہے تھے۔ حلال اور قانون کے مطابق آف شور کمپنیوں میں پیسارکھنا جرم نہیں مگر غیر قانونی پیسا رکھنا جرم ہے۔
مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے لوگوں کے نام بھی اس میں سامنے آئے۔ اس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کے خاندان کا نام بھی سامنے آیا۔ اپوزشن کے اعتراض پر وزیر اعظم صاحب نے ایک نے اچھا قدم اُٹھاتے ہوئے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس کی صفائی پیش کی اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا۔ سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا کہ ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے اس کی تحقیقات کی جائیں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جا ئے۔ سپریم کورٹ نے واپس حکومت سے کہا کہ پرانے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے نئے ٹی او آر بنائے جائیں تو سپریم کورٹ اس کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔یہ بات پارلیمنٹ کے سامنے لائی گئی ۔ نون لیگ اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں وقت گزار دیا اور کسی بھی ٹی اور آر پر متفق نہ ہوسکیں۔اس کے بعد جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے عدالت عالیہ میں درخواستیں دائر کی کہ عوام کو انصاف دلایا جائے۔ عدالت نے ایک لارجر بینچ قائم کیا اور پاناما لیکس کا مقدمہ عوام کو انصاف دلانے کے لیے شروع ہوا۔پہلا لارجربینچ چیف جسٹس صاحب کی مدت ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے فیصلہ نہ کر پایا۔ اس کے بعد نیا بینچ عدالت عالیہ کے پانچ معزز ججوں پر مشتمل قائم ہوا۔ اس عدالتی بینچ نے تمام فریقوں سے عدالت کا فیصلہ من عن تسلیم کرنے کے لیے تحریری حلف نامے لیے۔ پانچ معزز ججوںنے روزانہ کی بنیاد پر تمام فریقوں کو سننے کے بعد اپنے اپنے طور پر فیصلہ لکھا۔ دو ججوں نے وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ مانتے ہوئے عوامی عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ لکھا اور تین ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیر اعظم کو تین ماہ کا وقت دیا جائے اور ایک عدالتی جے آئی ٹی بنا کر اس کی مزید تحقیقات کی جائیں۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اس کا آخری فیصلہ سنایا جائے گا۔
جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، انکم ٹیکس ،اسٹیٹ بینک،نیب اور پاکستان کے دوسرے متعلقہ اداروں سے بینچ نے خود اچھا ریکارڈ رکھنے والے ممبران کا سلیکشن کیا اور ان کو ساٹھ دن کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کا وقت دیا۔ بینچ نے جے آئی ٹی کو سوالات دیے کہ ان کی بنیاد پر تحقیقات کی جائیں۔جے آئی ٹی نے وزیر اعظم، ان کے بیٹوں،وزیر خزانہ اور دوسرے متعلقہ لوگوں کو بلا کر بینچ کے دیے گئے سوالات کے تحت تحقیقات کیں۔ اب آج ۵ جولائی کو وزیر اعظم کی بیٹی کو بھی تحقیق کے لیے بلایا ہے۔ صاحبو! یہ کچھ انہونی بات نہیں کہ وزیر اعظم اور اس کے خاندان جس پر کرپشن کا الزام ہے اور ملک کی عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ جدید جمہوری ملکوں میں حکمران ،اپوزیشن اور آزاد عدلیہ عوام کے معاملات طے کرتے رہتے ہیں۔ اپوزیشن کایہ کام ہے کہ حکومت کے غلط کاموں پر تنقید کرے اور عوام کے حقوق غصب ہونے کی شکل میں حکمرانوں کا پارلیمنٹ میں احتساب کرے اور اگر پارلیمنٹ کسی فیصلے پر متفق نہ ہو تو اسے عدلیہ میں پیش کر کے اس کا فیصلہ لے۔یہ کام جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے کیا۔ پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی پالیسی اپنائے رکھی۔ حکومت کی اتحادی پارٹیوں نے حکومت کے حق میں بیان بازی کی۔ حقیقی اپوزیشن نے پہلے پارلیمنٹ میں کیس کو پیش کیا اور پارلیمنٹ جب اس کا فیصلہ نہ کر سکی تو ملک کی آزاد عدلیہ میں اس کیس کو پیش کیا۔حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے عدالت کی ہر پیشی پر عدالت کے باہر ،میڈیا میں شور وغل کے ساتھ اپنا اپنا نقطہ نظرعوام کے سامنے بیان کیا جاتا رہا۔ شام کو الیکٹرونک میڈیا اس پر تبصرے کرتا رہا۔ کچھ نے حکومت کے حق میں اور کچھ نے اپوزیشن کے حق میں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ بہت سی خرابیوں کے علاوہ اس سے عوام میں اپنے حقوق کاشعور بلند ہوا جوایک اچھی با ت ہے۔ حکومت اس کے وزرا نے مختلف طریقوں سے عدالت اور اس کے بعد جے آئی ٹی پر دبائو ڈالا۔ عدالت عالیہ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ چاہے آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہم نے ہر حالت میں انصاف کے ساتھ فیصلہ سنانا ہے۔ حکومت نے پہلے کہا کہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو عدالت میں گھسیٹا گیا۔ جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد وزیر اعظم نے باہر نکل کر پریس کانفرنس کی کہ ایک عوام کی بھی جے آئی ٹی لگنے وا لی ہے، اس میں ہمیں انصاف ملے گا۔ میری تین نسلوں کا احتساب ہو رہا ہے۔کچھ حلقوں کی طرف سے یہ پتلی تماشا اب مزید نہیں چلنے دیا جائے گا۔میرے اسی سالہ پرانے کاروبار کے متعلق سوال کیے جارہے ہیں۔اس پر عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم کاا شارہ فوج اور عدلیہ کے متعلق ہے۔
ریلوے کے وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر فیصلہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کے خلاف کیا گیا تو ملک ٹوٹ سکتا۔ ایک مشیر نے کہا کہ جے آئی ٹی جیمز بونڈ ۰۰۷ ہے۔ قطری شہزادے کے پاس خود جائے قطری شہزادے کے بیان کے بغیر فیصلہ پاکستان کے عوام نہیں مانیں گے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ مریم نواز کو جے آئی ٹی میں نہ بلایا جائے اس کو صرف سوالات بھیج کر کارروائی مکمل کی جائے۔ کیا بے نظیر عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہوئی تھی کیا ہر روز قوم کی بیٹیاں عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہیں ہیں۔ کیاان کے لیے وزیر خزانہ نے سو الات بھجنے کا کبھی بھی کہا ہے۔ اگر مریم نواز صاحبہ سیاست میں ہیں تو ان کو اپنی صفائی پیش تو کرنی ہے نا۔ پوری حکومتی مشینری جے آئی ٹی کومتنازع بنانے کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ مختصر یہ کہ حکومت نے یہ سمجھ کر کہ دو ججوں نے وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ ہونے پرعوامی عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیا اور تین ججوں نے صرف ساٹھ دنوں کا مزید وقت دیا یہ تو حکومت کے خلاف فیصلہ آئے گا۔ اس پرحکومت کی پوری مشینری نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی سر توڑ کوشش کی جو ایک غلط اقدام ہے۔مگر جے آئی ٹی واجد ضیا ء کی سربراہی میں بڑی برد باری سے اپنا کام کر رہی ہے۔ اس کو دس جولائی تک اپنا کام مکمل کر کے بینچ کے سامنے آخری رپورٹ پیش کرنی ہے۔ا ور پھر بینچ مکمل فیصلہ سنائے گا۔ دوسری طرف عمران خان پر بھی حکومتی وزیر نے مقدمہ قائم کیا ہوا ہے اس کا بھی فیصلہ آ جائے گا۔سپریم کورٹ کے ریماکس کے مطابق نہ آسمان گرے گا نہ زمین پھٹے گی۔ہاں عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کا عوام کوانصاف ملے گا اور پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔آج جے آئی ٹی کے سامنے وزیر اعظم کی بیٹی مریم نوازپیش ہو ئی۔ نون لیگ نے پورے ملک سے کارکنوں کو آنے کی کال دے رکھی تھی۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر موجود رہی۔ مریم نواز نے پیشی سے قبل جذباتی ٹوئیٹ میں کہا کہ والد کی آنکھوں میں تشویش اورخدشات دیکھے۔ مریم نواز کے حق میں بینرز بھی لگا دیے گئے ہیں۔کیا یہ عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کا ایک حربہ نہیں تھا؟ جوڈیشل اکیڈمی کی طرف آنے والے سارے راستے بند کر کے خاردار تار لگا ئے گئے ۔پولیس، ایف سی اور رینجرز کو تعینات کیا گیا۔ نون لیگ کے واویلے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔جے آئی ٹی مریم نواز سے سوالات کے بعد اپنی آخری رپورٹ بینچ کے سامنے پیش کرنے والی ہے اور بینچ اپنا آخری فیصلہ سنائے گا۔ نہ آسمان گرے گا اور نہ ہی زمین پھٹے گی۔بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ حکومت اپوزیشن اور عوام کو اپنی عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے آزادی سے فیصلہ کرنے کا آئینی حق دینا چاہیے۔ اس سے عوام کی جیت ہو گی ان شاء اللہ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر