وجود

... loading ...

وجود
وجود

خلیج کا تیل کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتا ہے

جمعه 23 جون 2017 خلیج کا تیل کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتا ہے

اک بے بسی کا نظارہ ہے اس طرح کہ مشرق وسطی میں تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرانے لگی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مغرب نے مشرق وسطی کا پہلا نقشہ ترتیب دیا تھا تو اس سے پہلے عربوں کو ترکوں سے لڑایا گیا تھا اور اب کی بارپہلے عربوں اور ایران کے درمیان خطے کی بلادستی کی کشمکش شروع کروائی گئی جس کی لپیٹ میں پہلے عراق، پھر شام اور یمن اور بحرین آئے یوں عالم عرب کا نصف سے زائد حصہ شعلوں کی نذر ہوگیا اور پھر سعودی عرب اور قطر کا تنازع کھڑا ہوگیا جس نے عربوں سمیت باقی اسلامی دنیا کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہوتی جارہی ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔
عالم عرب میں جس وقت عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا اور تیونس کے بعد باقی عرب ملک بھی اس کی لپیٹ میں آنے لگے تو امریکا کی سرکردگی میں مغرب نے فیصلہ کیا تھا کہ اس عوامی انتفاضہ کے آخری مرحلے میں اسے اپنے صہیونی دجالی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گاکیونکہ عوامی بغاوت کے نتیجے میں جن قوتوں نے عالم عرب میں اقتدار تک پہنچنا تھا وہ تمام کی تمام اسلامی تحریکوں سے وابستہ رہی تھیں اور اس جانب اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ستر کی دہائی کے بعد اسلامی سیاسی تحریکیوں کے مقابل جو لیبرل سیاسی تحریکیں تھیں وہ وقتا فوقتا دم توڑتی چلی گئیں تھیںتمام شمالی افریقہ سے لیکر مشرق وسطی تک کہیں بھی کوئی لیبرل سیاسی تحریک پنپ نہ سکی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر، تیونس، لیبیا، شام اور یمن تک میں فوجی آمر تھے جنہوں نے اسلامی تحریکیوں کو چار دہائیوں تک قوت سے دبایا اس کام کے لئے ان کے ملکوں کی فوجی قوت ان کے ساتھ تھی جبکہ عوامی سطح پر کسی لیبرل سیاسی جماعت کو اس ماحول میں پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکاکیونکہ یہی فوجی آمر اپنے مسلط کردہ نظام کو لیبرل سیاسی نظام کہتے تھے ۔ مشرق وسطی کے باقی ملکوں پر بادشاہتیں تھیں اس لئے وہاں اس قسم کے افکار کا پروان چڑھنا ناممکنات میں سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمریت والے عرب ملکوں میں اگر کسی نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا تو وہ اسلامی سیاسی تحریکیں تھیں جو کسی نہ کسی طرح اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے تھیں۔اس لئے مغرب کو نظر آرہا تھا کہ جس وقت عرب اسپرنگ کے ذریعے عرب ملکوں کے فوجی آمروں کا تختہ الٹا جائے گا تو وہاں جمہوریت اور عام انتخابات کے ذریعے بھی حکومت سازی ہوئی تو اسلامی سیاسی قوتیں ہی اس خلا کو پر کریں گی یہی وجہ ہے کہ تیونس کے واقعے کے بعد مصر میں پھیلنے والی سیاسی کشمکش کو امریکا سمیت مغرب کے کسی ملک نے روکنے کی کوشش نہ کی۔ اس وقت مغرب کے ’’اے پلان‘‘ کے مطابق پہلے یہاں اسلامی سیاسی قوتوں کو برسراقتدار آنے دیا جائے گا اس کے بعد دنیا بھر میں دجالی صہیونی میڈیا کے ذریعہ اسلامی انتہا پسندی کا خوف پیدا کیا جائے گا جس کے تناظر میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے گا کہ اگر اس بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کو نہ روکا گیا توشمالی افریقہ سے لیکر شام تک برسراقتداراسلامی قوتیں اسرائیل کے وجود کو ختم کردیں گی اس کے بعد مغرب میں قیام پذیر لاکھوں مسلمانوں کو مغربی نظام کے خلاف کھڑا کردیا جائے گا اس لئے اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق کے طور پر ان کا قلع قمع کرنے کا پورا حق ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تق یقینا امریکا سمیت پورا مغرب یعنی نیٹو مشرق وسطی کی اینٹ سے اینٹ بجاکر خطے کے امور براہ راست اسرائیل کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن یہ پلان شام پر آکر ناکام ہوگیا جس وقت روس نے آگے بڑھ کر اپنی فوجیں شام میں داخل کردیںاور مسئلہ الجھ گیا۔ کیونکہ تاحال امریکا اور اسرائیل روس سے براہ راست ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔اب یہاں سے پراکسی وار کا آغاز ہوتا ہے۔
اس تمام مرحلے یعنی پراکسی وار کے شعبے میں عالم عرب تقریبا نہتا تھا کیونکہ عربوں کی پراکسی قوتوں کا امریکا سمیت مغرب کو سوویت یونین کے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے تجربہ تھا کیونکہ سوویت یونین کی باقاعدہ فوج کے سامنے افغان مجاہدین کے علاوہ عربوں کی پراکسی قوتوں کا لڑایا گیا تھاامریکا اور مغرب اس بات سے واقف تھے کہ یہ پراکسی قوتیں اگر سوویت یونین کوافغانستان میں شکست سے دوچار کرسکتی ہیںتو آنے والے دور میں یہ امریکا اور یورپ کو بھی علاقے میں قدم نہیں جمانے دیں گی اس لئے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کروا کر پہلے عرب حکومتوں سے اپنے ہی پراکسی ہاتھ تڑوا دیے گئے۔ اس سارے دورانیے میں فائدہ کس کا ہوا ؟ امریکا اور اسرائیل کا۔۔۔
اب کھیل کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے یعنی ایران اور اس کی پراکسی قوتوں کو خطے میں کھل کر کھیلنے کا موقع مہیا کرناجن کی بنا پر شام سے لیکر یمن تک جنگ کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ قوتیں جن کے ہاتھوں میں امریکا سے لیکر یورپ تک کا حقیقی اقتدار ہے، انہوں نے اوباما کے مہرے کو آگے کرکے ایران سے معاہدے کی داغ بیل ڈالی جس نے ایرانی انتظامیہ کو اس اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ امریکا جیسی قوت بھی اس کے سامنے سرنگوں ہوگئی ہے اور اس کی قوت کو خطے میں تسلیم کرلیا گیا ہے، لیکن یہ ایک سراب تھا جو اوباما انتظامیہ کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہوگیا،لیکن اس وقت تک ایران کی پراکسی قوتیں لبنان کے بعدعراق، شام اور یمن تک پھیل چکی تھیں۔ جس کا مغرب کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ تمام عالم عرب نے ایران کو اسرائیل سے زیادہ اپنے وجود کے لئے خطرہ تصور کرنا شروع کردیا۔دوسری جانب ان مہنگی ترین پراکسی جنگوں نے ایرانی اقتصادیات کو نچوڑ کر رکھ دیاجس کی وجہ سے عوام میں بے چینی کے آثار نمودار ہونے لگے۔ یہی امریکا اور اسرائیل کی بھی منشا ہے جسے انہوں نے آنے والے وقت میں استعمال کرنا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کی تیس سالہ ’’خدمات‘‘ کو نظرانداز کرکے مغرب نے مصری کی سیاسی صورتحال کو مخالف سیاسی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا، یقینی بات تھی کہ اس صورتحال کے نتیجے میںانتخابات کے ذریعے اخوان المسلمون کے پاس ہی اقتدار جانا تھا ۔ اس مرحلے پر مصر کا اقتدار ہاتھ میں لینا مصری اخوانیوں کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہوں نے بعد میں بھگتا۔ اخوان المسلمون سے وابستہ صدر مرسی کا اقتدار میں آنا باقی عرب ملکوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ایک بات یاد رہے کہ تمام عالم میں مصر کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی یورپ میں فرانس کی ۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر فرانس کو چھینک آجائے تو تمام یورپ کو زکام ہوجاتا ہے یہی صورتحال مصر کی مشرق وسطی میں ہے ۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میںاسلامی تحریکیوں کا مرکز بھی مصر ہی کہلایا جاتا ہے۔ باقی عالم عرب کی جتنی بھی اسلامی سیاسی تحریکیں ہے وہ یا تو اخوان المسلمون کی شاخیں ہیں یا اسی کے افکار کے بطن سے سے انہوں نے جنم لیا ہے۔اس لئے یہ ضروری تھا کہ اسلامی سیاسی تحریکوں کی کمر توڑنے کے لئے مصر کے اخوان کو نشان عبرت بنایا جائے۔کیونکہ مصری اخوان مقبوضہ فلسطین کی اسلامی تحریک حماس کے لئے باعث تقویت تھے اور اب تو قاہرہ میں اخوانیوں کا اقتدار تھا اس لئے اسے اسرائیل کے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد اور ایران کے ساتھ راہ رسم بڑھانے کا الزام عائد کرکے مصری فوجی ڈکٹیٹر عبدالفتح السیسی کو سازباز کے ذریعے اخوانیوں کے اقتدار پر چڑھا دوڑیا۔ یوں وہ کام جو تیس برس تک حسنی مبارک نہ کرسکا سیسی نے کردکھایا ۔دوسری جانب خلیجی عرب ریاستوں میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اخوانی اور ان کی ہم فکر سیاسی اسلامی تحریکیںاب یہاں اپنے پیر مضبوط کرکے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی انقلابی سوچ کے دائرے میں لینے کی کوشش کریں گے۔ اس تمام صورتحال نے پورے مشرق وسطیٰ میں اخوانی اور دیگر اسلامی سیاسی تحریکوں کے خلاف کریک ڈائون کی صورتحال پیدا کردی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خلیجی عرب ریاستیں شام کے معاملے میں معلق ہوکر رہ گئے۔ اگر وہ بشارت حکومت کا ساتھ دیتے تو ایران کے پیر مضبوط ہوتے اور اگر باغیوں کا ساتھ دیتے تو کامیابی کی صورت میں اخوان کے نظریات سے متاثر حلقے حکومت بنا لیتے۔ اس صورتحال کا خمیازہ شام کے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں نے بھگتا۔ بعین یہی صورتحال اس سے پہلے عراق میں پیدا کی گئی تھی جس کا وقتی طور پر فائدہ ایران اور روس کو ہوا۔
اس سارے معاملے کے بعد اب اس خونی کھیل کا تیسرا حصہ شروع ہوا چاہتا ہے ۔ یہ عربوں کا باہمی اختلاف جس کی ابتدا قطر تنازع سے کی گئی ہے اور پورے خطے میں نئی گروپ بندی جاری ہے۔ ریاست قطر ایک چھوٹا ملک ہے لیکن وسائل کے لحاظ سے پورے خلیج میں مالا مال ریاست تصور ہوتی ہے جس کی فی کس آمدنی خلیج میں سب سے زیادہ تصور کیا جاتی ہے۔ قطر ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن پالیسی کے لحاظ سے اس نے اپنے سائزسے بڑے جوتے میںپیر ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اپنے آپ کو ایک ماڈرن لیبرل ریاست تصور کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ اس کے ’’مثالی‘‘ سفارتی تعلقات ہیں۔ قطر اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کی ابتدا 1996ء میں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ تاریخی طور پر یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا کام بھی دوحہ کے ذریعے ہوا تھا۔ موجودہ تنازعے کی ابتدا قطری حکومتی ویب سائٹ پر قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے اس بیان سے ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایران کو اسلامی قوت قرار دیا اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بیان کئے۔ قطری حکومت کا موقف ہے کہ اس کی حکومتی ویب سائٹ کو ہیک کیا گیا تاکہ قطر اور دیگر عرب ملکوں کے درمیان تنازع کھڑا کیا جائے لیکن سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ملکوں نے قطر حکومت کو موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قطر دہشت گردی کی حمایت اور انتہا پسند افراد کی میزبانی کرتا ہے ۔ ان کا اشارہ دوحہ میں اخوان المسلمون کے لیڈروں کو پناہ دیئے جانے کی جانب تھا، دوسری جانب حماس کی حمایت کی بھی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اصل اختلافات کیا ہیں اس میں سب سے پہلے الجزیرہ نیوز چینل اس کے بعد اخوان اور حماس ہیں۔ اس ساری جلتی پر تیل کا کام امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ اور بیانات نے دیا۔
اس حوالے سے اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ترکی کھل کر قطر کی مدد کو آگیا ہے ۔ چند ماہ پہلے تک اس کے صرف چھ سو فوجی قطر میں تعینات تھے لیکن اب ترک پارلیمنٹ سے بل منظور کروانے کے بعد پانچ ہزار سے زائد ترک فوجی قطر میں ہوں گے۔ جبکہ امریکا کا سینٹ کام کا فوجی اڈہ بھی دوحہ کے قریب واقع ہے۔ اب اگر امریکا سینٹ کام کا اڈہ وہاں سے منتقل بھی کرتا ہے تو اسے کم سے کم ایک سے ڈیڑھ برس کا عرصہ درکار ہوگا ،دوسری جانب روس نے فی الحال براہ راست مداخلت کا عندہ تو نہیں دیا ،لیکن عرب صحافتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی کی صورت میں روس بھی اس جنگ میں کود سکتا ہے۔ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ اس سارے کھیل کا اصل مقصد روس کو میدان میں لانا اور عربوں کے وسائل کو آخر تک نچوڑ لینا ہے۔ روس کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لئے نیٹو اور امریکا انتہائی خاموشی کے ساتھ بلقان کے راستے روس کے قریب فوجیں اکھٹا کررہے ہیں ،بھاری اسلحے کی ترسیل کئی ماہ سے جاری ہے۔ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور عسکری قدموں کو روکنے کے لئے بڑا معرکہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر