وجود

... loading ...

وجود
وجود

گزین مری کی واپسی اور کچھ ذکر داعش کا

جمعه 16 جون 2017 گزین مری کی واپسی اور کچھ ذکر داعش کا

بلوچستان میں داعش نامی تنظیم کے ٹھکانوں پر سردست فوج نے کنٹرول حاصل کرلیا ۔ان کے کئی اہم کمانڈرز اور دوسرے ارکان مارے گئے ۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی پیشرفت اور کامیابی ہے۔ خیرپہلے نوابزادہ گزین مری کی واپسی کی خوشگوار اطلاع کی بات کرتے ہیں۔آخر میں کچھ ذکر داعش کا کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ 8جون 2017 کو ملک کے اخبارات میں خبر چھپی کہ نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ گزین مری نے جلا وطنی ترک کرکے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ نوابزادہ گزین مری مسلم لیگ نواز کے رہنماء صوبائی وزیر آبپاشی اور مری قبیلے کے نواب، جنگیز مری اور شدت پسند بلوچ رہنمائوں، نوابزادہ بالاچ مری مرحوم، نوابزادہ حیربیار مری اور نوابزادہ زامران مری کے بھائی ہیں۔ حیربیار مری مبینہ طور پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور زامران یونائیٹڈ بلوچ آرمی(یو بی اے ) کے سربراہ ہیں۔ یہ دونوں بھی بیرون ملک پناہ لئے ہوئے ہیں۔ گویا خودکو اپنے والد نواب خیر بخش مری کے فکری وارث سمجھتے ہیں۔ نواب خیر بخش مری صوبائی خود مختاری اور حق خودارادیت کے بڑے علمبردار تھے ۔ اپنی اس سوچ پر تادم مرگ قائم رہے۔ البتہ افغانستان سے آنے کے بعد وہ پاکستان ہی میں مقیم رہے۔ علیحدگی کی سوچ رکھنے والی بلوچ تنظیمیں انہیں اپنا فکری و نظریاتی رہبر سمجھتی ہیں۔ نوابزادہ بالاچ مری جو2002کے الیکشن میں پی بی23کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد وہ اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے ۔ انہی دنوں بالاچ مری نے بی ایل اے کو دوبارہ فعال اور سرگرم کیا۔حکومت اور فورسز کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔ اور خود براہ راست اس کی کمانڈ کرتے رہے۔ بی ایل اے کے مختلف اضلاع میں کیمپ قائم کردیئے۔ خود پاک افغان سرحدی علاقوں میں منتقل ہوگئے جہاں سے وہ افغانستان آتے جاتے رہتے۔ اس طرح 21نومبر2007کو بالاچ مری کا افغانستان میں انتقال ہوا ۔البتہ ان کی تنظیم نے پاکستان کی فورسز پر بالاچ مری کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ بالاچ مری کی تدفین کسی نامعلوم مقام پر کردی گئی۔ بالاچ مری کے انتقال کے بعد بی ایل اے کی کمانڈ حیربیار مری نے سنبھال لی جن کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی زامران مری بھی شریک کار رہے۔ آخر کار زامران نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے الگ مزاحمتی دھڑا قائم کرد یا۔ اس گروہ نے بلوچستان کے اندر بڑی سفاکانہ کارروائیاں کیں۔ یو بی اے کا اہم کیمپ مستونگ کے ُان پہاڑی سلسلوں میں قائم تھا جہاں حالیہ دنوں فورسز نے داعش اور لشکر جھنگوی العالمی کے ٹھکانوںکو تباہ کیا۔نوابزادہ حیربیار بھی1997کے عام انتخابات میں پی بی18 کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کے پاس وزارت کا قلمدان بھی تھا۔ غرضیکہ غالباً2000ء میں گزین مری بھی پاکستان سے نکل گئے اور دبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ اگرچہ ان پر کسی مسلح تنظیم سے وابستگی کے کوئی واضح اشارے نہیں ملے ہیں تاہم وہ مختلف مواقعوں پر بلوچستان کی آزادی کا اظہار کرچکے ہیں۔ حکومت پاکستان متحدہ عرب امارات سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کرچکی تھی۔ گزین مری ایک بار دبئی میں حراست میں بھی لئے گئے۔ مگر انہیں پاکستان کے حوالے نہ کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے اداروں نے اپنے طور پر ضرور ان سے تفتیش کرلی تھی۔ نوابزادہ گزین مری نے پی بی18کوہلو سے انتخاب لڑااور بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ 1993کے عام انتخابات تھے ۔انہی انتخابات میں نواب جنگیز مری بھی پی بی16سبی سے کامیاب ہوئے تھے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ بنے۔ 20اکتوبر1993 تا8نومبر1996 تک کی ان حکومت میں نوابزادہ گزین مری صوبے کے وزیرداخلہ رہے۔ نواب جنگیز مری کے پاس تب مواصلات و تعمیرات کے محکمہ کا قلمدان تھا۔ نواب خیربخش مری کے ایک اور صاحبزادے حمزہ مری بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔ حمزہ مری سیاسی دلچسپیاں نہیں رکھتے، یعنی گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نوابزادہ گزین مری نے واپسی کا فیصلہ کرنے میں تاخیر ضرور کی ہے تاہم دیر آیددرست آید کے مصداق ہے ۔ خاندان کی جانب سے جنگیز مری کو اپنے طرز سیاست ،مقتدرہ سے قربت اورمسلم لیگ نواز سے وابستگی پر شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔ نواب خیر بخش مری مرحوم بھی جنگیز مری سے نالاں تھے۔ان سے موافقت سیاسی اور قبائلی دونوں حوالوں سے گزین مری کو بھی نہیں ہے ،جس کا اظہار وہ حال ہی میں کر چکے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ حیر بیار اور زامران کی شدت پسندی اور کشت و خون کی سیاست کی مخالفت میں اب جنگیز مری تنہا نہیں رہے۔ گزین مری کی راہیں اب حیربیار اور زامران سے الگ ہوچکی ہیں۔ انہوں نے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی مذمت کی ہے ۔ بقول گزین مری کے وہ پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کرینگے۔ گزین مری جسٹس نواز مری قتل کیس میں نامزد ہیں۔ گزین مری کی واپسی سے حیربیار مری اور زامران کے اثرات مزید کم ہوں گے۔اور مسلح مزاحمت کی بجائے سیاسی و آئینی جدوجہد کی سوچ کو فروغ حاصل ہوگا۔ بلوچستان میں مسلح بلوچ تنظیموں کی پہلے والی پوزیشن اب نہیں رہی تاہم یہ اپنا وجود برقرار رکھی ہوئی ہیںجوحکومت اور تحفظ کے اداروں کے لئے پریشانی اور عدم اطمینان کا باعث ہے۔ کیونکہ وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں ان کی جانب سے تخریبی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف لشکر جھنگوی العالمی نے بالخصوص بلوچستان کے ضلع مستونگ کے پہاڑی سلسلوں میں کیمپ بنانے کی کوشش کی۔ یہ تنظیم اب افغانستان میں موجود داعش سے منسلک ہوچکی ہے۔ مستونگ سے متصل علاقوں اور کوئٹہ میں ان کے ارکان پھر سے فعال ہوچکے ہیں۔ یکم جون سے 3جون تک مستونگ کے کوہ سیاہ کے مختلف دروں اور غاروں میں پاک فوج نے مسلسل آپریشن کے بعد اس تنظیم کے 12اہم افراد کو ہلاک کردیا۔ ان ٹھکانوں میں داعش سندھ چیپٹر کے سربراہان حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی موجود تھے۔ سندھ میں ہونیوالے مختلف واقعات کے بعد ان کے نام منظر عام پر آئے۔ اس آپریشن میں شکار پور سے تعلق رکھنے والا داعش کا اہم کمانڈر زاہد محمود اعوان پکڑا گیا ۔ اطلاع ہے کہ وہ آپریشن کے دوران مارا گیا ہے تاہم سوشل میڈیا پر جو تصاویر جاری ہوئیں اس میں زاہد محمود اعوان حراست میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ دراصل اس کیمپ کو بنانے والا، فاروق بنگلزئی ہے جو افغانستان کے علاقے ننگرہار میں موجود ہے ۔ اس شخص کا شمار بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے چند ایک بڑے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ کیمپ میں فاروق بنگلزئی کا چھوٹا بھائی اعجاز بنگلزئی نائب کی حیثیت سے موجود تھا۔ آپریشن رد الفساد کے دوران اعجاز بنگلزئی دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ 24مئی کو کوئٹہ کے جناح ٹائون سے اغواء ہونیوالے دو چینی باشندوں کو اسی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ یہ لوگ فرار ہوتے وقت چینی باشندوں کو بھی ساتھ لے گئے، جس کے فوراً بعد ان کے قتل کی ویڈیو جاری کردی گئی اور داعش نے ذمہ داری قبول کرلی۔ اسی کیمپ سے سندھ کے اندر مختلف خودکش حملوں حتیٰ کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی۔ یہاں آئی ای ڈیز اور خودکش جیکٹیں بنائی جاتی تھیں ۔ اس کیمپ میں آئندہ نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت کے ایک بڑے بندوبست کی منصوبہ بندی پر کام ہورہا تھا۔ انہی پہاڑی سلسلوں میں بلوچ شدت پسند تنظیم یو بی اے کے ٹھکانے اب بھی موجود ہیں۔ اطلاع ہے کہ اس کالعدم مذہبی تنظیم کے ایک اہم کمانڈر نے افغانستان سے آکر مستونگ کے گردونواح کا دورہ کیا ہے بالخصوص مرؤ ، اسپلنجی اور اس سے متصل علاقوں کے عوام کو حکومت سے تعاون نہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ گویا یہ علاقے بدستور حساس ہیں۔ آپریشن رد الفساد کے بعد ان پہاڑوں میں ایف سی کی چوکیاں قائم کردی گئی ہیں تاکہ پھر سے مسلح جتھے وہاں قدم نہ جمائیں ۔اس بات کی گردش بھی ہوئی کہ چینی باشندوں کی لاشیں مستونگ کے’’ یارُو‘‘نامی علاقے میں پھینک دی گئی ہے ۔مگر اب تک فورسز لاشیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ۔ داعش پاکستان اور افغانستان کے لئے اس وقت کا بڑا خطرہ ہے اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے دونوں ممالک کو مربوط میکنزم پر اتفاق اور عمل پیرا ہونا ہو گا۔ داعش تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی یہ تمام کالعدم تنظیمیں افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہیں۔ افغان حکومت ان کے خلاف لڑنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ داعش کے خوف سے افغانستان کی بعض بڑی شخصیات ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں جن میں شمال کی ایک اہم شخصیت کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ افغان حکومت اگر داعش سے اپنا ملک صاف اور محفوظ بنانے میں سنجیدہ ہے تو اسے پہلے اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھارت کو ان تنظیموں کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور افغانستان میں خارجی افواج اور بھارت کی موجودگی میں یہ تنظیمیں یقینی طور پر مزید جڑ پکڑیں گی۔ البتہ پاکستان ہی حقیقی دوست اور مددگار بن سکتاہے کیونکہ پاکستان خود اس جنگ کا شکار ہے ۔ بلکہ ایران کے اندر داعش کے حملوں کے بعد سہ ملکی اشتراک کار ہونا چاہئے۔ یوں افغانستان میں ان جتھوں کو ختم کرنے میں آسانی ہوگی۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر