وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کے خلاف سازش

پیر 12 جون 2017 پاکستان کے خلاف سازش

1987ءالطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کا ”موسم بہار“ تھا۔ اس تحریک کا قیام تو 1984ءمیں ظہور پذیر ہوا تھا۔ تین سال اس کی بناوٹ اور تنظیم سازی میں صرف ہوئے اور جب 1987ءکے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی اداروں میں اس کے نمائندے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کراچی اور آفتاب شیخ حیدرآباد کے میئر بن گئے۔ اس عظیم کامیابی نے سندھ کی سیاست پر ایم کیو ایم کی دھاک بٹھادی‘ ایم کیو ایم کی غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی نے اس نوازائیدہ پارٹی کو صوبے کے شہری علاقوں میں سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔ یہ سلسلہ 22اگست 2016ءتک چلتا رہا۔ اس دن کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کے لیے کئی دن سے جمع ایم کیو ایم کے کارکنان سے پارٹی کے بانی کا لندن سے ٹیلیفونک خطاب آگ لگاگیا۔ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف تقریر اور بعد ازاں میڈیا ہاؤس پر حملے نے تاریخ الٹ دی۔ آنکھوں پر بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ نے آنکھیں پھیر لیں۔ سخت قسم کا آپریشن شروع ہوا اور ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں جمع ہونے والوں نے اپنی الگ”ایم کیو ایم پاکستان “بناکر ایم کیو ایم لندن سے اپنا تعلق ختم کرلیا‘ ایم کیو ایم 1947ءمیں بھارت سے نقل مکانی کرکے سندھ میں بودو باش اختیار کرنے والی”مہاجر آبادی“ کی محرومیوں اور مسائل کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی‘ جو بعد ازاں”متحدہ قومی موومنٹ“ کے نام سے سیاسی میدان میں اپنا وجود منوا کر پاکستان کی تیسر ی بڑی پارلیمانی طاقت بن گئی تھی لیکن 22اگست کے واقعہ نے سارے تارو پود بکھیر دیے۔ اب سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود اس کے منتخب میئر کراچی وسیم اختر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اختیارات کی خیرات مانگ رہے ہیں۔
پاکستان کی قومیتی اور نسلیتی سیاست پر معروف صحافی اور ایڈیٹر انچیف خبریں گروپ ضیاءشاہد کی تحریریں عموماً منعہ شہود پر جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب”ولی خان جواب دیں“ نے گزشتہ دور میں بڑا تہلکہ مچایا تھا۔ اب ہال ہی میں ان کی تازہ کتاب”پاکستان کے خلاف سازش“ منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے ملک کے چار نسل پرست سیاستدانوں محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی‘ الطاف حسین اور خان آف قلات کا احوال اور کردار بیان کیا ہے۔
ضیاءشاہد لکھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز تو قیام پاکستان سے قبل ہی ہوگیا تھا جب ایک انگریز حاکم نے نجی محفل میں کہا تھا”ہم نے ساحل مکران سے لے کر فورٹ سنڈیمن کے پہاڑ اور نوشکی سے لے کر نصیر آباد تک ہندو سلطنت کے لئے راستہ ہموار کردیا ہے۔“ اس سازش کے تحت بلوچستان اور سابق صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا گیا۔ پہلے بلوچستان میں کام کیا گیا جس کی اسمبلی کے 65ارکان کو قابو میں کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ بلوچستان کو بھارت میں شامل کرنے کا اثر سابق صوبہ سرحد میں ہوتا جہاں کانگریس کی وزارت تھی اور پختون لیڈر عبدالغفار خان”سرحدی گاندھی“ کہلاتے تھے۔ دونوں صوبوں میں کانگریسی اور انگریز ناکام ہوئے۔ انہیں بلوچستا کے اندر ناکام بنانے میں سردار جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی نے تاریخی کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں خان آف قلات نے ہندوستان جاکر دھلی میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی اور قلات کو بھارت میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر مولانا آزاد نے مشورہ دیا کہ اب چونکہ پاکستان بن گیا ہے لہذا وہاں کے مسلمان اسی ملک میں رہ کر اسے مضبوط کریں۔
موجودہ خان آف قلات لندن میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بھارتی اخبار”ہندوستان ٹائمز“ کو انٹر ویو دیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو بلوچستان کی آزادی کے لیے مدد کرنی چاہیے۔ ضرورت پڑی تو اسرائیل سے بھی مدد لیں گے۔ چین کی گوادر تک اقتصادی راہداری بن گئی تو چین اور پاکستان کا بھارت کے گرد گھیرا تنگ ہوجائے گا لہٰذا بھارت کو بلوچستان کی مدد کرنی چاہیے۔ خان آف قلات کے ان باغیانہ خیالات کی جھلک ان سیاستدانوں کے بیانات میں بھی نظر آئے گی جن کا تذکرہ جناب ضیاءشاہد کی کتاب میں کیا گیا ہے۔ بھارت گزشتہ 70سال سے بلوچستان پر قبضہ اور گریٹر پختونستان کے مکروہ منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اس کا ایک جاسوس کلبھوشن گزشتہ عرصہ کے دوران بلوچستان سے گرفتار ہوا اس نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے اور دہشت گردی کے کئی واقعات کا اعتراف کرلیا ہے جس کا مقدمہ عالمی عدالت میں زیر سماعت ہے اور بھارت اس کی رہائی کے لیے دیوانہ وار کوششیں کررہا ہے۔ ادھر دشمن پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں جاسوسوں اور دہشت گردوں کے ذریعے دن رات نقب زنی کررہا ہے اور دوسری طرف ہمارے سیاستدان پاناما اور جے آئی ٹی کے کھیل میں ایک دوسرے کے گریبان تار تار کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت اور ادارے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں ۔ اقتدار کا خوفناک کھیل اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جاری ہے۔ تیسری طرف پاکستان کو مسائل کے گرداب میں پھنسا کر وطن سے محبت اور چاہت کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ عالمی سود خوروں سے بھاری شرح اور شرائط پر قرضے لے کر ملک کو ان کے جال میں جکڑا جارہا ہے گیس اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور گرتی ہوئی معیشت کو مصنوعی سہاروں پر کھڑی کرکے غربت و افلاس اور بے روزگاری کا دروازہ کھول دیا گیا ہے تاکہ عوام کی اپنے ملک سے محبت کم کردی جائے اور خدا نخواستہ کوئی سانحہ برپا ہو تو کوئی احتجاج کرنے والا نہ ہو۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بالکل درست فرمایا تھا کہ فوج کتنے محاذوں پر کام کرے گی۔ اس کے باوجود ملکی دفاع کے ساتھ پاک افواج قوم کی توقعات بھی قوت کے ساتھ پوری کررہی ہیں۔
کتابیں قوموں کی زندگیوں پر جادوئی اثر ڈالتی ہیں۔ان کی رہنمائی آئی ہیں انہیں گمراہی اور اندھیروں سے نکال کر روشن منزل سے ہمکنار کرتی ہیں۔1967ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب The Myth Of Indepenceمنظر عام پر آئی ۔ اس کا اردو ترجمہ ”امید موہوم“ کے نام سے شائع ہوا تو پانی میں آگ لگ گئی‘ ترقی پسند انقلابی تحریک کی مہمیز مل گئی۔ ساری ترقی پسند قوتیں لاڑکانہ کے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے چل پڑیں۔ اسے سوشلسٹ لیڈر مان لیا‘ 1917ءمیں روسی انقلاب کے وقت لینن نے اپنی مشہور کتاب”کیا کیا جائے“ تحریر کی تھی‘ جس نے انقلابی مزدور تحریک میں جان ڈال دی اور محنت کشوں کا انقلاب عالیشان کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
جناب ضیاءشاہد نے اپنی نئی کتاب” پاکستان کے خلاف سازش“ میں ان عوامل اور خطرات کی نشاندہی کردی ہے جو اس وقت مملکت خدا داد پاکستان کو درپیش ہیں‘ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پیش کردہ تصور پاکستان اور دو قومی نظریہ میں آج بھی بڑی طاقت ہے 1947ءسے قبل بر صغیر دو قوموں مسلمان اور ہندوؤں پر مشتمل تھا۔ آزادی کے بعد بھارت نے مسلمانوں کے ملک پاکستان کو 1971ءمیں سازش کے ذریعے دو ٹکڑے کئے اور اس کے بعد موجودہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسی”را“ پاکستان میں پوری طرح متحرک اور فعال ہے ان حالات میں جناب ضیاءشاہد نے اپنی تازہ کتاب میں پاکستان کے خلاف سازشوں کو نہایت مؤثر انداز میں بے نقاب کرکے عظیم قومی خدمت انجام دی ہے رمضان المبارک کے مہینے میں کراچی‘ حیدرآباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کرکے قوم نے کامیاب اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ وطن فروشوں اور ضمیر فروشوں کے خلاف بھی ایسے ہی مثالی اتحاد کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر