وجود

... loading ...

وجود
وجود

آفات سے نقصانات کو کم کرنے کا عالمی دن

پیر 24 اپریل 2017 آفات سے نقصانات کو کم کرنے کا عالمی دن

آبادی کے دباو کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسی جگہوں پر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں آفات سے زیادہ نقصانات کا امکان ہوتا ہے ماہر طبیعات ہاکنگ بھی دوسرے سائنسدانوںکے اس خیال سے متفق ہیں کہ یہ امکان بہت کم ہے کہ انسان اگلی ہزاروی یعنی سن 3001 ءکو دیکھ پائے گا

دنیا بھر میں جمعرات کو آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت غریب ملکوں میں آفات سے ہونے والے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔20 سال میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 56 فیصد زلزلوں اور سونامی کے باعث ہوئیں جب کہ باقی اموات کا سبب طوفان، سیلاب، خشک سالی، مٹی کے تودے گرنے، جنگلاتی آگ اور انتہائی درجہ حرارت بتائے گئے۔
برسلز میں قائم سینٹر فار ریسرچ آن دی ایپیڈیمولوجی آف ڈیزاسٹرز (سی آر ای ڈی) نے 1996ءسے 2015ءکے دوران دنیا میں آنے والی آفات اور ان سے ہونے والے نقصانات کا ریکارڈ جمع کر کے رپورٹ مرتب کی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان10 پہلے ملکوں میں ہوتا ہے کہ جن میں گزشتہ 20 سال کے دوران آفات سے سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر قمر زمان چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب ملکوں میں آفات سے نمٹنے کے لیے ناکافی انتظامات بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی بڑی وجہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس سال کے دوران آنے والی آفات کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی شدت ماضی کے مقابلے میں زیادہ تھی۔”پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث (قدرتی آفات کے) زیادہ خطرے کا سامنا ہے۔آبادی کے دباؤ کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسی جگہوں پر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں آفات سے زیادہ نقصانات کا امکان ہوتا ہے۔اس سے بچاؤ کے لیے سرمائے کی بہت ضرورت ہے کہ جو بنیادی ڈھانچہ ہو وہ آفات کے اثرات کو برداشت کر سکے۔ پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔”
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 20 سال کے دوران دنیا میں 7056 مختلف آفات ریکارڈ کی گئیں جن میں تقریباً ساڑھے 13 لاکھ لوگ موت کا شکار ہوئے اور ان میں سے 90 فیصد کا تعلق غریب اور متوسط آمدن والے ممالک سے تھا۔
20سال میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 56 فیصد زلزلوں اور سونامی کے باعث ہوئیں جب کہ باقی اموات کا سبب طوفان، سیلاب، خشک سالی، مٹی کے تودے گرنے، جنگلاتی آگ اور انتہائی درجہ حرارت بتائے گئے۔سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پہلے دس ملکوں میں ہیٹی سرفہرست ہے جہاں دو لاکھ 29 ہزار 699 اموات ہوئیں، انڈونیشیا میں ایک لاکھ 82 ہزار 136، میانمار میں ایک لاکھ 39 ہزار 515 اموات ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق دیگر ملکوں میں چین، بھارت، پاکستان، روس، سری لنکا، ایران اور وینزویلا شامل ہیں۔
ایک طرف پوری دنیا قدرتی آفات کی شکار ہے لیکن دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ تمامتر منفی رپورٹس کے باوجود ابھی انسان کے پاس جینےکے لیےکافی وقت یعنی کم ازکم ایک ہزار سال باقی ہیں ۔ ، عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعات ہاکنگ بھی دنیا کے دیگر سائنسدانوںکے اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں اور انہوں نے بھی گزشتہ روز خبردار کیا ہے کہ یہ امکان بہت کم ہے کہ انسان اگلی ہزاروی یعنی سن 3001 کو دیکھ پائے گا۔ انسان کو چاہیے کہ زمین پر فنا ہونے سے پہلے ہی باہر کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا لے۔عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعات ہاکنگ بھی سائنسدانوں کے اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس دنیا میں رہنے کے لیے انسان کے پاس ابھی ایک ہزار سال باقی ہیں۔ اس کے بعد شاید اس زمین پرانسان کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔
عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعات ہاکنگ کاکہنا ہے کہ اگرچہ ہزار سال کے بعد بھی سورج اسی طرح طلوع ہوگا۔ شامیں بھی آج جیسی ہی ہوں گی۔ چودہویں کا چاند بھی اپنی ٹھنڈی کرنیں بکھیرے گا۔ سارے موسم بھی آج کی طرح کرہ ارض پر موجود ہوں گے، مگر ممکن ہے کہ ان کا انداز کچھ مختلف ہو۔ لیکن اگر کچھ نہیں ہوگا تو انسان نہیں ہوگا۔ممکن ہے کہ آپ یہ کہیں کہ قیامت کی پیش گوئیاں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ مگر ہوتا کچھ بھی نہیں ہے لیکن شاید اس بار ایسا نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ دعویٰ کسی نجومی یا ستارہ شناس کا نہیں ہے بلکہ ایک چوٹی کے سائنس دان نے کیا ہے۔ جسے پوری دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور اس سائنس دان کا نام ہے اسٹیفن ہاکنگ۔
پچھلے دنوں عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعات نے آکسفورڈ میں اپنے ایک لیکچر میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امکان بہت کم ہے کہ انسان اگلی ہزاروی یعنی سن 3001ءکو دیکھ پائے گا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ انسان کو چاہیے کہ زمین پر فنا ہونے سے پہلے ہی زمین سے باہر کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا لے کیونکہ یہ مٹی اسے جینے نہیں دے گی۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ہم اس کرہ ارض کو چھوڑے بغیر ایک ہزار سال کے بعد زندہ رہ سکیں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خلائی پروگراموں پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور جلد از جلد کو ئی ایسا سیارہ ڈھونڈیں جو انسان کے رہنے کے قابل ہو۔دنیا کی تباہی کے متعلق مختلف نظریات موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج آہستہ آہستہ اپنی توانائی جلا رہا ہے اور آخرکار یہ شمسی نظام ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس میں تقریباً 5 ارب سال باقی ہیں۔ جب کہ اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ اس عالم رنگ و بو میں انسان کے قیام کا دورانیہ سمٹ کر اب صرف ایک ہزار سال باقی رہ گیا ہے۔آج کل جس چیز کا بہت شور ہے، وہ ہے کرہ ارض کا گرم ہونا یا گلوبل وارمنگ۔ جس کے نتیجے میں برف پگھل رہی ہے، سمندر بلند ہو رہے ہیں، موسم شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ قدرتی سانحات بڑھتے جا رہے ہیں۔ گلوبل ورامنگ کا زیادہ تر ذمہ دار انسان خود ہے۔ ماحول کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت زندگی کو مشکل تر تو بنا رہا ہے لیکن یہ امکان کم ہے کہ وہ صرف ایک ہزار سال میں انسان کو ہی نگل جائے گا۔معروف سائنس دان ہاکنگ نے اپنے لیکچر میں بتایا کہ یہ انسان کے اپنے ہی اعمال ہیں کہ زمین اس کا بوجھ اٹھانے اور اسے اپنے دامن میں پناہ دینے سے انکار کر دے گی۔انہیں خدشہ ہے کہ ایک بڑا حادثہ کسی ایسی تباہی کا سبب بن سکتا ہے جس سے زمین پر موجود سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تباہی3 طریقوں سے آ سکتی ہے۔ جوہری جنگ سے، لیبارٹری میں بنائے گئے وائرس سے اور کمپیوٹر کے نظام میں فروغ پاتی ہوئی مصنوعی ذہانت سے، جس کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔جوہری جنگ انسانی یا خودکار نظام کی غلطی یا کسی ایک شخص کے غلط فیصلے سے شروع ہو سکتی ہے لیکن پھر اس کا اختتام سب کچھ تباہ ہونے کے بعد ہی ہوگا۔
وائرس اور جینیات پر سائنسی تحقیق سے کوئی ایسا وائرس جنم لے سکتا ہے جو انتہائی مہلک اور لا علاج ہو۔ اگر ایسا وائرس کسی وجہ سے لیبارٹری سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر آگے کی کہانی انتہائی خوفناک ہے۔کمپیوٹر کے سائنس دان کچھ عرصے سے مصنوعی ذہانت پر پیش قدمی کررہے ہیں۔ پہلے جن چیزوں کو انسان کنٹرول کرتا تھا اس ان کا استعمال کمپیوٹر کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ جس رفتار سے مصنوعی ذہانت میں ترقی ہو رہی ہے، اس کے پیش نظر یہ بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں کمپیوٹر انسان کی گرفت سے آزاد کر ان پر حاوی ہوجائیں گے۔ اور پھر اس سے آگے کا سفر تباہی کی طرف جاتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے انسان کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ اپنی نسل کی بقا چاہتے ہیں تو اپنی نظریں اوپر ستاروں پر جمائیں، اپنے پاؤں پر نہیں اور زمین سے جڑے رہنے کا خیال جھٹک دیں کیونکہ شاید ایک ہزار سال کے بعد کرہ ارض اسے قبول نہ کر سکے۔


متعلقہ خبریں


نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ وجود - هفته 27 اپریل 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں پارٹی قائد نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں نے کہاہے کہ (ن) لیگ پنجاب کے اجلاس کی تجاویز نواز شریف کو چین سے وطن واپسی پر پیش کی جائیں گی،انکی قیادت میں پارٹ...

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان وجود - هفته 27 اپریل 2024

سندھ حکومت نے ٹیکس چوروں اور منشیات فروشوں کے گرد گہرا مزید تنگ کردیا ۔ ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شایع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔منشیات فروشوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں بھی مزید تیزی لانے کی ہدایت کردی گئی۔سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔جس میں شرج...

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار وجود - هفته 27 اپریل 2024

بھارتی ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔مسلسل 10 برس سے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی مودی سرکار ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کے خواہش مند ہیں۔ نری...

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار

سندھ میں جمہوری حکومت نہیں بادشاہت قائم ہے، آفاق احمد وجود - هفته 27 اپریل 2024

آفاق احمد نے سندھ سے جرائم پیشہ پولیس اہلکاروں کی کراچی تعیناتی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پہلے ہی غیر مقامی اور نااہل پولیس کے ہاتھوں تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے، اب سندھ سے مزید جرائم پیشہ پولیس اہلکاروں کی کراچی تعیناتی کا مقصد کراچی کے شہریوں کی جان ومال...

سندھ میں جمہوری حکومت نہیں بادشاہت قائم ہے، آفاق احمد

پی ٹی آئی کو باغ جناح میں جلسے کی اجازت دینے سے انکار وجود - هفته 27 اپریل 2024

ضلع شرقی کی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو باغ جناح میں جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ معاملے پر سندھ ہائیکورٹ میں بھی سماعت ہوئی، جس میں اے جی سندھ نے سکیورٹی وجوہات بتائیں، دوران سماعت ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا کہ، کیا یہ 9 مئی کا واقعہ دوبارہ کردیں گے۔ڈپٹی کمشنر...

پی ٹی آئی کو باغ جناح میں جلسے کی اجازت دینے سے انکار

غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کیخلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم وجود - هفته 27 اپریل 2024

وفاقی وزیر داخلہ نے آئی جی اسلام آباد کو غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم دے دیا۔صحافیوں سے ملاقات کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ دارالحکومت میں غیر قانونی رہائشی غیر ملکیوں کا ڈیٹا پہلے سے موجود ہے ۔ آئی ...

غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کیخلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ وجود - جمعه 26 اپریل 2024

اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم وجود - جمعه 26 اپریل 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم

مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر