وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاناماہنگامہ باقی ہے میرے دوست

هفته 22 اپریل 2017 پاناماہنگامہ باقی ہے میرے دوست

اگر توبات سیاسی اخلاقیات کی ہوتی یا پھر کسی بھی قانونی موشگافی کی تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہوتی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پاناماقضیئے کے فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی میاں محمد نواز شریف اخلاقی برتری کے ساتھ ساتھ حقِ حکمرانی کا قانونی اور آئینی جواز بھی کھو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مروّج سیاسی اور معاشرتی نظام کے ایک طالب علم کے طور پر میری پہلے دن سے ہی یہی رائے رہی ہے کہ یہ نظام ابھی خودکشی کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں ہے اس لئے میاں نوازشریف، آصف علی زرداری ، عمران خان یا اس نوع کی کسی بھی مخلوق کو کچھ بھی ہونے کاامکان بہت ہی کم ہے۔ گزشتہ ایک سال میں خاکسار نے اس رائے کا انہی الفاظ میں متعدد مرتبہ اظہار بھی کیا تھا جس پر کچھ احباب بدمزہ بھی ہوتے رہے اور کبیدہ خاطربھی۔
تمام ساجھے داروں کی طرف سے یہ نظام ”پرامن بقائے “باہمی کے جس اصول پر چلایا جا رہا ہے اس میں میاں نوازشریف اور ان کے ارد گرد جمع راتب خوروں کے علاوہ ان کے حامی سیاسی چمونوں کی بھی بقاءاس نظام کے دوام میں ہے کہ یہ نظام (جیسا بھی ہے) یوں ہی چلتا رہے۔ جب کہ اندرونی اور بیرونی طاقتیں اس بات پر مائل نظر نہیں آتیں کہ وہ موجودہ نظام میں کسی جوہری تبدیلی کو قبول کر سکیں۔ یہی وہ مقام اور دلیل ہے جو میاں نواز شریف اور اس طرح کی دیگر شخصیات کے وجود کو سیاست کے شطرنج پرجواز بخشتی ہیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے جج حضرات اگر تھوڑی سی زحمت کر کے اپنے گریبانوں میں جھانک کر قوم کو بتا سکیں کہ کیا وہ اسی مفاد پرستی اور زرپرستی کے گھٹیا، غلیظ اور قبیح نظام سے گزر کر اوپر نہیں آئے جس کے خلاف جہاد کا انہیں ایک دم ہیضہ ہوا ہے۔ کیا وقت کے موجودہ لمحے کو گزرے لمحے سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں سے تین مارشل لاوں کے ادوار کو کھرچا جا سکتا ہے اور کیا پہلے مارشل لاءکے نتیجے میں سیاسی جنم لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے ذریعے سیاسی مخالفین کا معاشی ناطقہ بند کرنے کے عمل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مٹاکر پھینک دیا گیاہے۔ وہ جج حضرات جن کو اس فیصلے کو لکھتے وقت آئین یاد آیا ان کو یہ آئین مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے ہوئے کیوں یاد نہیں آیا تھا؟ جب گیہوں کا بیج ڈالیں تو گیہوں اگے گا نہ کہ چاول۔
اگر تو اس عدلیہ نے ملک میں تین مارشل لاءلگانے والوں کو تاریخ کے کوڑے دان کا عبرت ناک حصہ بنا ڈالا، اور اس ملک میں صنعت کاری اور صنعت سازی کے مستقبل میں آخری کیل ٹھونک ڈالنے پر ان کو قبر سے نکال کر سزا دے ڈالی، تو پھر میاں نواز شریف کو بھی میرٹ پرگھر بھیجنا بنتا ہے۔ لیکن اگر اس ملک میں آخری مارشل لاءلگانے والا ، بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف ، دنیا میں آئین اور قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے ، نائٹ کلبز میں دھمالیں ڈالتا پھرتا ہے ، تو پھر اس عدلیہ کو، جو موجودہ نظام کا حصہ اور اس کی آئینی محافظ ہے، کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ملک کی طقبہ اشرافیہ پر انگلی اٹھا کر خود کو افتخار حسین چوہدری بناتے ہوئے اس قوم کے آدرشوں، آرزووں اور امیدوں کو اپنے گھٹیا مفادات کی بھینٹ چڑھائے۔
جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے کا نعرہ لگانے والے اس معاشرے میں جب میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف ایک دن میں لکھ پتی سے ککھ پتی ہوئے تو انہوں نے اپنی زندگی گزارے کے لیے ہر سہارا لیا جو ان کو معاشی دیوالیہ پن سے بچا سکتا تھا۔ جب جان پہ بن آئے تو کیا حلال اور کیا حرام، کیا قانونی اور کیا غیر قانونی، کیا آئینی اور غیر آئینی؟پہلے بھی کہا اور پھر خم ٹھونک کر کہتا ہوں کہ اگر آپ کو میاں نواز شریف کی جائیدادوں اور ذرائع آمدن کا حساب درکار ہے تو پھر
طولِ شب فراق ذرا ناپ دیجئے
پھر ذرا ان حالات و واقعات کا حساب دینا بھی ان جج صاحبان اور ان کے حامیوں پر فرض ٹھہرتا ہے جن سے یہ جرائم سرزد ہوئے۔ یہ جج صاحبان ذرا آرٹیکل چھ کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کر کے دکھادیں، میاں نواز شریف کا سیاسی سر یہ قوم اس کے قدمو ں میں خود لاکے ڈال دے گی۔
دل لگتی نہیں لیکن خدا لگتی تو یہی ہے کہ یہاں پر آپ کے پر جلتے ہیں تو پھر اس نظام کے آئینی محافظ ہونے کے ناطے آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ لکھے سکرپٹ پڑھنے والے ان طوطے اینکروں کی باتوں کو اپنے فیصلوں کا حصہ بنائیں، جن کے نا خیالات اپنے نہ الفاظ اپنے۔ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اینکر کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ اس کی رائے کو آئینی دستاویزات کا حصہ بنایا جائے کیوں کہ سب کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے پروگرام کو ہٹ کروا کے اس کی ریٹنگ کی دوڑ میں اینکر کیا کچھ نہیں کررہا ہوتا، جس میں حقائق کو اپنی مرضی سے مروڑنے سے لے کر اس کو بغیر کسی وجہ کے جھٹلانا بھی شامل ہوتا ہے۔لیکن جہاں پر ”گاڈ فادر“ نامی ناول کا حوالہ دیا جا سکتا ہے وہاں اینکر تو یقیناً بہت اعلیٰ دانشور ہونا چاہیے، اور اگر ایسا ہو گیا ہے جو کہ ہو گیا ہے تو پھر اس معاشرے کی ذہنی سطح، شعور اور تخلیقی آزادانہ سوچ پر فاتحہ پڑھ لیجئے۔
لیکن اگر آپ کے اپنے حالات جامع اور خامیوں سے پاک نہیں تو پھر دوسرے پر بھی وہی قانون لاگو کیجئے جو آپ نے اپنے لئے پسند کیا تھا۔ بہت اچھی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اور ہونی چاہیے، سیاسی معاملات طے کرنے کا فورم ہی پارلیمنٹ ہے، جب یہ معاملات یہاں سے نکل کر سڑک پر یا پھر عدلیہ کے پاس جائیں گے تب ہی ملک میں اس سیاسی بندر بانٹ کا آغاز ہوگا، اور آخر میں بلیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور بندر پھر آف شور اثاثے بنا کر دبئی کے نائٹ کلب میں ناچتا ہوا آپ کو بتاتا پایا جائے گا کہ فلاں عرب حکمران نے ،جو گزشتہ سال مر گیا تھا، مجھے ایک ارب روپیہ تحفے میں دیا تھا۔
٭٭….٭٭


متعلقہ خبریں


پانامہ کے بعد اب اقامہ اسکینڈل سیاسی رہنما پھنس گئے الیاس احمد - جمعه 04 اگست 2017

ہم یورپ پرکتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں مگریہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ کے لوگ ،یورپ کے حکمراں اپنے لوگوں کے لئے منافق نہیں ہوتے وہ اپنے ملک سے سچے ہوتے ہیں ان میں صدیوں پرانی ایک عادت ہے کہ وہ جوبات بھی کرتے ہیں وہ تحریر کردیتے ہیں یہ نہیں کرتے کہ ایک عمل کریں اوراس کوچھپادیں اگردیکھا ج...

پانامہ کے بعد اب اقامہ اسکینڈل سیاسی رہنما پھنس گئے

جے آئی ٹی تحقیقات سے سرکاری حلقوں میں کھلبلی۔حکومت تحقیقاتی ٹیم کو قطر بھیجنے پر بضد باسط علی - منگل 04 جولائی 2017

پاناما مقدمے میں عدالتی حکم پر قائم جے آئی ٹی کی تحقیقات کے رخ نے سرکاری حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔اب آزاد تجزیہ کاروں سمیت حکومت سے قربت رکھنے والے مبصرین بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی ٹیم نے عدالتی فیصلے کی تفہیم اور جے آئی ٹی کے قیام پر درست تجزیہ ...

جے آئی ٹی تحقیقات سے سرکاری حلقوں میں کھلبلی۔حکومت تحقیقاتی ٹیم کو قطر بھیجنے پر بضد

پاناما پیپرز‘جنرل (ر) امجد بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ، تحقیقات حتمی مرحلے میں داخل نجم انوار - جمعه 30 جون 2017

پاناما پیپرز کے بعد عدالت عظمیٰ کے حکم پر جے آئی ٹی(جوائنٹ انٹرو گیشن ٹیم) کی طرف سے وزیر اعظم میاں نوازشریف اور اْن کے خاندان کی تلاشی کا عمل اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایک طرف جے آئی ٹی کو حکومت کی جانب سے متنازع بنانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہے تو دوسری طرف خود جے آئی ...

پاناما پیپرز‘جنرل (ر) امجد بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ، تحقیقات حتمی مرحلے میں داخل

انصاف اور ملین ڈالر درخت وجود - جمعه 28 اپریل 2017

قحط الرجال کا ماتم کرنے والا بھی لحد میں اُتر گیا۔گمنامی جسے راس آئی۔ بغداد کے بزرگ نے کہا تھا ’’عافیت گمنامی میں ہے۔‘‘ ہر کسی کو یہ میسر کہاں؟حیرت ہے کہ حیات کو سرکاری ملازمت میں بسر کرنے اور فعال زندگی کی تمام حرکیات سے نباہ کرنے والے نے بالآخر زندگی کو گمنامی کی نذر کیا۔کیسے...

انصاف اور ملین ڈالر درخت

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ باسط علی - پیر 24 اپریل 2017

  [caption id="attachment_44254" align="aligncenter" width="784"] عمران خان نے سندھ کے ویتنام دادو میں کامیاب جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی[/caption] پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دادو میں ایک کامیاب جلسہ کرکے ہی سب کو نہیں...

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ

کچھ ہوش جو آیا تو ’’پاناما‘‘نہیں دیکھا محمد اقبال دیوان - پیر 24 اپریل 2017

کہتے ہیں جس کو شیام (امریکا) وہ آنند، قند(شریں) ہے جگ میں اسی کے دھرم (اسٹیبلشمنٹ )کی پھیلی سوگند(خوشبو)ہے لیلا ، رچانے والا وہی کشن چند ہے چھتیس لاکھ راگنی مرلی (عرب ممالک) میں بند ہے۔ ہم کو تو مرلی والے کی مرلی پسندہے نہ میں جانوں آرتی بندھن(عمران خان) نہ پوجا کی ریت م...

کچھ ہوش جو آیا تو ’’پاناما‘‘نہیں دیکھا

کہنے کو بہت کچھ تھا اگر کہنے پر آتے محمد اقبال دیوان - هفته 22 اپریل 2017

مومن مبتلا محمد اقبال دیوان فراز کو خود سے یہ گلہ بہت تسلسل سے رہا کہ وہ اپنے دل کے حالات سب سے بیاں کرتے پھرتے تھے اور انہیں محبتیں کرنا نہیں آتیں تھیں۔ان کے محبوب بھی پریانکا چوپڑہ کی مشہور سیریز Quantico جیسے ہوتے تھے۔ ابتدا میں تو بالکل پلے نہ پڑتے تھے کہ چاہتے کیا ہیں۔ اسی...

کہنے کو بہت کچھ تھا اگر کہنے پر آتے

پاناما فیصلہ : عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کردیا! وجود - جمعرات 20 اپریل 2017

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاناما پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم نوازشریف سے فوری  استعفے کامطالبہ کردیا۔عمران خان نے کہا کہ نوازشریف کے پاس اب وزیراعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ خود نوازشریف نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی یہی مطالبہ کیا ت...

پاناما فیصلہ : عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کردیا!

کیا لوگ ہیں ہم؟ رضوان رضی - جمعرات 16 فروری 2017

جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے زیر سماعت پاناما لیکس کی بنا ء پر شروع ہونے والے کیس کی سماعت کا وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہوچکا ہوگا۔ جنوبی امریکا میں واقع ریاست پانامہ میں ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کو رجسٹر کرنے والے ادارے ’...

کیا لوگ ہیں ہم؟

پاناما لیکس ..آئی ایم ایف نے بھی حکمرانوں سے آنکھیں پھیر لیں ایچ اے نقوی - بدھ 26 اکتوبر 2016

پاناما پیپرز اور بہاماس لیکس ایمانداری اور شفافیت کا معاملہ ہے، متعلقہ افراد کااحتساب ہونا چاہیے،کرسٹین لغرادکی صاف گوئی وزیر خزانہ اسحاق ڈار مشترکہ کانفرنس کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ کی ایم ڈی کے بیان پرمتحیر نظر آئے ،احتساب مطالبے کو سیاسی قراردے دیا پاکستان کے دورے پر آئی ہو...

پاناما لیکس ..آئی ایم ایف نے بھی حکمرانوں سے آنکھیں پھیر لیں

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر