وجود

... loading ...

وجود
وجود

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟

جمعه 21 اپریل 2017 ’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟

تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا، مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا،فیصلہ بیک وقت فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھیپاناما کیس کے فیصلے پر ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ دراصل تحقیقاتی عمل کے تسلسل کا عدالتی حکم ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے ناقدین یہ کہہ رہے تھے کہ آج کے اس فیصلے میں یا تو سپریم کورٹ نواز شریف کو ان کے عہدے سے برطرف کر دے گی اور یوں قانون کی جیت ہو گی یا پھر نواز شریف جیت جائیں گے۔
لیکن سپریم کورٹ نے اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، وہ متفقہ نہیں تھا۔ پانچ رکنی بینچ میں سے دو جج اس حق میں تھے کہ نواز شریف کو سربراہ حکومت کے عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ تین ججوں کی رائے یہ تھی کہ پاناما کیس اور آف شور کمپنیوں کی مزید تفصیلی چھان بین کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یا جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ میڈیا میں اس فیصلے کے فوری بعد نظر آنے والے رد عمل اور تجزیوں میں ماہرین اور تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ آج کا عدالتی فیصلہ بیک وقت کئی فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھی۔پاکستان تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا۔ مسلم لیگ نون کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر ن لیگ کے حامیوں میں توخوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے نے میاں نوازشریف کے لیے بہت ساری مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
دوسری طرف قومی احتساب بیورو کا خیال تھا کہ اس نے کرپشن کی روک تھام اور اس کیس کے سلسلے میں اپنی طرف سے پوری کاوشیں کی ہیں، لیکن عدالتی فیصلے کے مطابق نیب نامی اس ادارے کا کردار بھی نامکمل تھا۔
عدالت نے ایک وسیع مشترکہ تفتیشی ٹیم کے قیام کا حکم دیا ہے جو یہ پتہ چلائے گی کہ اس کیس میں نواز شریف کے اہل خانہ کی ملکیتی رقوم خلیجی عرب ریاست قطر کیسے پہنچی تھیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مشترکہ تفتیشی ٹیم کے سامنے اپنے بیان دینے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو بھی پیش ہونا پڑے گا۔
چند قانونی ماہرین کے مطابق پاناما کیس میں عدالتی فیصلہ دراصل یہی ہے کہ یہ کیس اور اس کی چھان بین ابھی جاری رہے گی۔
اس بارے میںجرمن خبر رساں ادارے نے جب پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال سے ان کا ردعمل دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، “آج حق کی فتح ہوئی ہے اور جھوٹ کی شکست، پی ٹی آئی نے سراسر جھوٹ اور بدنیتی کی بنیاد پر یہ کیس بنایا تھا۔ اسی لیے فیصلہ ہمارے حق میں آیا، قوم خوش ہے کہ جھوٹے لوگ کیفر کردار تک پہنچے۔‘‘
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف 2018 تک کے لیے وزیر اعظم ہیں اور اس کے بعد اگلے پانچ سال کے لیے بھی وہی چاروں صوبوں میں حکومت بنائیں گے اور ان کی طرف سے پاکستان کو آگے لے جانے کا سفر جاری رہے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن مجاہد علی نے آج کے عدالتی فیصلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، “ہم تو اس فیصلے کو خوش آئند سمجھتے ہیں کہ دو جج حضرات نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا اور باقی تین نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کمیٹی بنانے کی صورت میں کیا، دراصل یہی ہماری جیت ہے۔ تاہم توقعات کی جہاں تک بات ہے تو ہم نے سوچا تھا کہ نواز شریف کی بادشاہت کا دور آج ختم ہو جائے گا لیکن، چلیں، تھوڑا اور انتظار کر لیتے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ فائنل فیصلہ ہمارے ہی حق میں آئے گا۔‘‘


ادھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے عدالت کے اس فیصلے کے بعد بنی گالہ میں پریس کانفرنس میں نواز شریف سے فوری استعفے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد وہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ وہ صادق اور امین نہیں ہیں، اس لیے نئی بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی وزیر اعظم کے استعفے کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔
صحافی تجزیہ نگار اقبال خٹک نے جرمن ریڈیو کو بتایاکہ’’میڈیا نے اس فیصلے کو پہلے ہی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔ وزیر اعظم کے بارے میں یہ مقدمہ تھا، تو نیوز ویلیو تو اس کی بنتی تھی، لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس پر بیان بازی اور جو ٹاک شوز نشر کیے گئے، ان میں قانونی کی بجائے سیاسی پہلوؤں پر ہر طرح کی بات کی گئی، حالانکہ یہ ایک عدالتی معاملہ تھا نہ کہ سیاسی۔ تو میڈیا عوامی اور سیاسی پارٹیوں کی امیدوں کو اس حد تک آگے لے گیا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ بس اب معاملہ آر یا پار ہونے کو ہے۔‘‘اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ تو زیادہ تر ایک اپیل فورم ہے، وہ مقدمہ چلانے کا فورم ہے ہی نہیں،’’یہی وجہ ہے کہ جب یہ فیصلہ آیا، تو ظاہر ہے کہ ایک پارٹی کو یہ لگا کہ اس کا سب کچھ کھو گیا ہے اور دوسری کو لگا کہ اس نے کوئی بہت بڑا معرکہ مار لیا ہے، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سب عوام میں ہیجان پھیلانے، ریاست کے بارے میں منفی رائے کے تسلسل اور عدلیہ کو بلاوجہ متنازع بنا دینے کا موجب بنا ہے۔‘‘


معروف تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے بتایاکہ ’’نواز شریف نے مزید ساٹھ دن کے لیے سیاسی رسوائی خرید لی ہے۔ یہ ن لیگ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے کہ کمیشن کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے علاوہ ایک اورمحترم جج نے میاں صاحب کی نا اہلی کے لیے لکھا ہے۔ نون لیگ والے اس بات پر خوش ہیں کہ بقیہ تین ججوں نے ایسا نہیں کیا۔ تو میرے خیال میں وہ ججز صرف حجت پوری کرنا چاہتے ہیں اور ان کو موقع نہیں دینا چاہتے کہ یہ سیاسی شہید بن جائیں۔ اب ان کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا اور یاد رہے کہ جے آئی ٹی ملزمان کے لیے بنتی ہے۔‘‘


انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلیجنس کی طرف سے ایک بریگیڈیئر لیول کا افسر جب کہ آئی ایس آئی کی طرف سے ایک میجر جنرل لیول کا افسر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں منی لانڈرنگ کے مسئلے کے حوالے سے بھی ماہر شامل کیے جاتے ہیں،’’اب میاں صاحب کو بہت سارے سوالوں کے جوابات دینے پڑیں گے۔ اگر منی ٹریل ان کے پاس ہوتا تو کیا یہ پہلے پیش نہیں کر دیتے۔ ان کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں۔ تو عدالت نے ان کا منہ بند کرنے کے لیے یہ جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ رونا دھونا نہ کریں۔ میرے خیال میں اب یہ بات واضح ہے کہ ان ساٹھ دنوں میں میڈیا کا دباؤ بھی میاں صاحب پر پڑے گا اور سیاسی دباؤ بھی ان پر برقرار رہے گا۔ لہذا آنے والے دنوں میں انکی مشکلات میں اس فیصلے کی وجہ سے مزید مسائل ہوں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس ٹیم میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگ اور دوسرے ماہرین ہوں گے۔ حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان افسران پر دباؤ ڈال سکے یا ان کو خرید سکے۔ یہ ٹیم ساری معلومات منگوا سکتی ہے اور ان کے بینک ریکارڈ بھی چیک کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں میڈیا اور عوام اس ٹیم پر گہری نظر رکھیں گے۔‘‘
دوسری طرف تجزیہ نگار توصیف احمد خان نے کہا، ’’یہ جے آئی ٹی فوج کے دباؤ میں آسکتی ہے جس کا یقیناً نقصان میاں صاحب کو ہو سکتا ہے۔ اگر فوج نے ان کو سائڈ لائن کرنا چاہا تو اب اس فیصلے کے بعد ان کے لیے یہ آسان ہوجائے گا۔ تو میرے خیال میں تو یہ فیصلہ میاں صاحب کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘‘


تجزیہ نگار ڈخالد جاوید جان کے بقول، ’’اگر نواز شریف کو ہٹایا جاتا ہے تو اس سے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہو گی جو یقیناًسیاسی عمل کے لیے بہتر نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے کب جمہوری کلچر کو فروغ دیا۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر پی پی پی کے لیے حالات مشکل بنا دیے تھے۔ ان کی سوچ بہت آمرانہ ہے کیونکہ ان کا تعلق بھی جنرل ضیاء کے سیاسی قبیلے سے ہی ہے۔ اب انہیں بھگتنا پڑے گا۔یہ ممکن ہے کہ میاں صاحب اسمبلی توڑ دیں یا پھر کچھ عرصے کے لیے مستعفی ہوجائیں۔ بہت کم امکان ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں کیونکہ ان کے لیے یہ بہت ہی مشکل کام ہے کہ وہ چند افسران کے سامنے جوابات دیں، جس میں فوج کے لوگ بھی ہوں گے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بھٹو کے کیس میں کم از کم تین ججوں نے انہیں بے گناہ قرار دیا تھا۔ یہاں ججز ان کو بے گنا ہ قرار نہیں دے رہے بلکہ میاں صاحب کے لیے سارے دروازے بند کر رہے ہیں۔ اس ٹیم کی انکوائری کے بعد میاں صاحب کے لیے کچھ نہیں رہ جائے گا کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ ان کے پاس منی ٹریل اور لندن فلیٹ کی ملکیت کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ رہا سوال قطری خط کا تو وہ عدالت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ تو آنے والے دنوں میں نون لیگ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔‘‘

ججز نے میاں صاحب کے لیے دروازے بند کردیے

بھٹو کے کیس میں کم از کم تین ججوں نے انہیں بے گناہ قرار دیا تھا۔ یہاں ججز ان کو بے گنا ہ قرار نہیں دے رہے بلکہ میاں صاحب کے لیے سارے دروازے بند کر رہے ہیں۔ اس ٹیم کی انکوائری کے بعد میاں صاحب کے لیے کچھ نہیں رہ جائے گا کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ ان کے پاس منی ٹریل اور لندن فلیٹ کی ملکیت کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

بقیہ تین ججز بھی نوازشریف کو ملزم ہی سمجھتے ہیں

نواز شریف نے مزید ساٹھ دن کے لیے سیاسی رسوائی خرید لی ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے علاوہ ایک اورمحترم جج نے بھی میاں صاحب کی نا اہلی کے لیے لکھا ہے، لیگی خوش ہیں کہ بقیہ تین ججوں نے ایسا نہیں کیا۔ تو وہ ججز صرف حجت پوری کرنا چاہتے ہیں، اب ان کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا اور یاد رہے کہ جے آئی ٹی ملزمان کے لیے بنتی ہے۔


متعلقہ خبریں


کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ وجود - جمعه 26 اپریل 2024

اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم وجود - جمعه 26 اپریل 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر