وجود

... loading ...

وجود
وجود

تکبّر

بدھ 29 مارچ 2017 تکبّر

باسمہ تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔
زمانے کی ہوا بگڑتی جارہی ہے مگر جنابِ زرداری کے ماتھے پر غرور کی شکنیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ کیا وہ اُس حالت کو پہنچ گئے جہاں عالم کے پرورگار کی ناراضی متوجہ ہوتی ہے۔ الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!!!!
کیسا غرور ہے جواُن کے ایک فقرے میں چھلکتا ہی جارہا ہے۔ایسا نہ ہو کہ اُنہیں(شریف برادران اور حکومتی وزراء) سیف الرحمان کی طرح میرے قدموں میں ایک بار پھر گرنا پڑے۔ سیف الرحمان کو ذلت کا یہ لباس اس لیے پہننا پڑا تھا کہ وہ خود تکبر کے اسی طرح مرتکب ہوئے تھے۔ کسی کے قدموں میں گرنا ایسا شرمناک نہ تھا جتنا زرداری کے قدموں میں گرنا تھا۔ سیف الرحمان نے دُہری ذلت کا سامنا کیا تھا۔ مگر اب زرداری بھی اُسی راستے پر ہیں۔ اُنہیں سیف الرحمان کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے تھا، اپنی جبینِ نیاز کو جھکا دینا چاہئے تھا مگر وہاں انکساری نہیں غرور کی نہ ختم ہونے شکنیں ہیں۔
حضرت حسن بصریؒ نے آسمانی ہدایت میں تکبر کی ہلاکت خیزی کا ادراک زیادہ بہتر کیا تھا، کمال کا نکتہ بیان کیا۔ ’’اگر آدمی کے تمام ہی اعمال نیک ہوتے اور وہ اپنے نیکیٔ اعمال کے تکبر میں مبتلا ہو جائے تویہ اُسے ہلاک کردے گا۔‘‘ تکبرتو صراطِ مستقیم اور راست روی کا بھی گوارا نہیںکیا گیا، پھر آپ تو جناب زرداری ہیں۔یوں ہی نہیں کہا گیا ،ا س کے پیچھے عبد ومعبود کا ایک حقیقی فلسفہ ہے کہ ’’تکبر اللہ کی چادر ہے۔‘‘مخلوق کو تواضع وانکساری کا سبق تعلیم کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بڑائی(تکبر) اور عظمت کو اپنے لیے خاص رکھا اور اس میں کسی کو ہمسر نہ ہونے دیا۔ اسی لیے بڑائی اور عظمت میں ہمسری کرنے والا ہر شخص دنیا میں ہی رسوا ہوا۔ حدیث میں پہلے سے ہی اُن کا ٹھکانا جہنم قرار دیا گیا۔
جناب زرداری یوں ہی مخاطب نہیں ہوئے۔دراصل اس ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں یہ فقرے کنجِ لب سے پھوٹتے اُچھلتے اُبھرتے ہیں۔پاکستان میں سیاست بھی ایک کاروبار بن چکا ہے۔ جناب زرداری پر موقوف نہیں شریف برادران کو بھی سامنے رکھیں۔ پاکستان میں ایسا کون سا کاروبار ہو رہا ہے جہاں یہ قبیلہ دخیل نہیں۔ مرغی ہی نہیں اُس کے انڈے بھی ان کی حرص سے بچ نہیں سکے۔ سندھ میں شکر سازی کا پورا کاروبار زرداری کی تحویل میں جا چکا۔ اب وہ ایک حقیقی بلڈر کی طرح زمینوں پر ہاتھ صاف کررہے ہیں اور بڑے بڑے پراجیکٹ ہتھیا رہے ہیں۔ یہ ایک خاص طرح کی ذہنیت ہے۔ نوے کی دہائی میں جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کے حقیقی حریف تھے۔ اور پاکستانی سیاست ان دونوں جماعتوں کے درمیان منقسم اور یرغمال تھی تو یہ جناب زرداری تھے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو اس پر قائل کیا تھا کہ اگلی سیاست صرف روپے پیسے کا کھیل ہوگا۔ اور وہی انتخابی سیاست میں کامیاب رہے گا جس کے پاس پیسے زیادہ ہوں گے۔ دونوں سیاسی حریفوں نے تب دولت جمع کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا شروع کردیے تھے۔ اب پوری سیاست اور حکومت دراصل اس بے انتہا دولت کی حفاظت اور موقع بہ موقع اس کے فروغ کے لیے ہی ہے۔یہ ایک کھیل ہے جس میں حکومت، دولت کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہے اور دولت، حکومت حاصل کرنے یا اُس کے تحفظ کے لیے جمع کی جاتی ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ یہ خاندان اس کھیل کو کھیلتے ہوئے اب بہت آگے بڑھ چکے۔ یہاں تک کہ اب پیسہ بھی اُن کے سیاسی نقشے کے لیے ایک اضافی چیز بن چکا۔ ان کا اب ایک ورثہ ہے اور ان کے فیض یافتگان کا ایک ٹولہ ہے۔ جو ان کے ہر اقدام کی عریانی کو جمہوری جامہ پہناتا ہے۔ان کے پاس خود کو بچانے کے لیے ’’قانون ‘‘کی بے ساکھی ہے جو دولت کی ایک ادنیٰ کنیز ہے۔ جس کے آگے ’’انصاف‘‘ خود آداب بجالاتا ہے۔اس سے جمہوریت کبھی فروغ پزیر نہ ہوگی۔ وِل ڈیورانٹ نے جب تہذیب کی مختصر کہانی لکھی اور اُس میں تاریخ کے ہیروز دریافت کیے تو اس مزاج اور اس سے وابستہ سیاسی نظام کے ننگے پن کو بھی عیاں کردیا۔لکھا کہ اس نظام میں ’’مشاورت محاذ آرائی پیدا کرتی ہے۔ قانون اقلیتی قوت کے آگے سرجھکا دیتا ہے۔ ۔۔ ۔۔ نااہلی کی زرخیزی نیچے سے نسل کو بڑھا رہی ہے، جبکہ ذہانت کا بنجر پن اوپر سے نسل کا شیرازہ بکھیر رہا ہے۔‘‘ وِل ڈیورانٹ کے ان الفاظ کو بار بار پڑھیے اور غور کیجیے کیا پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام یا پھر ہماری دہائیوں کی سیاست نے کسی بھی طرح کا کوئی اعلیٰ دماغ پیدا کیا ہے۔ یا پہلے کے مقابلے میں ہمیں ترقی معکوس پر ڈال دیا ہے۔ سیاست ہی نہیں صحافت کا حال بھی مسلسل ابتری کی طرف مائل ہے۔
دراصل مغربی فکر اور صنعتی معاشرے نے انسانی اوصاف ، شرف اور ذہانت کے ساتھ ایک ’’پراڈکٹ‘‘ کا سا سلوک کیا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو عجیب لگے مگر ا س مزاج کی جڑیں دراصل موسوی شریعت کے سامنے فرعون کے سلوک میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ ؑجب فرعون کے دربار میں تھے تو اُن کی بات سن کر درباریوں نے اُن کا مضحکہ اڑایا تھا۔ اُس کہ وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، اُن کے پاس اعلیٰ لباس نہیں تھا۔ وہ کوئی پرشکوہ سواری بھی نہ رکھتے تھے۔ فرعون اُن کی فکر کا اپنی فکر سے موازنہ نہیں کررہا تھا بلکہ اُن کی حیثیت کا اپنی حیثیت سے موازنہ کررہا تھا۔ تاریخ میں فرعون کے سارے جواب اور دلائل دوبارہ پڑھیے وہ حضرت موسیٰ ؑ سے اپنا پورا موازنہ اپنی دنیوی برتری سے کرتا ہے۔ حضرت محمدﷺ کی دعوت کے ساتھ بھی اکابرین قریش کا یہی سلوک تھا۔ اُنہوں نے جب ایک رب کی طرف بلایا تو قریش نے اُن سے ’’مفاہمت‘‘ (زرداری سیاست کی ترکیب) کے لیے اُنہیں جتنی بھی پیشکشیں کی وہ اُن کی اسی دنیاداری کی ذہنیت کی آئینہ دار تھی۔حکومت لے لیجیے، ہیرے جواہرات لیجیے، مکہ کی سب سے خوبرو لڑکی کو چاہیں تو اپنے حبالہ ٔ عقد میں لے لیں۔ آج کا مغربی معاشرہ اور جمہوری ثقافت کادعویٰ تو علم کا ہے مگر اُن کامعاشرے سے پورا برتاؤ دراصل زمانۂ جاہلیت کے رویے کا غماز ہے۔
واپس پلٹیے! آصف علی زرداری کی لڑائیاں بھی خوب ہیں۔ لڑنے تو وہ’’ بلّے‘‘ سے کھڑے ہوئے تھے مگر اب وہ اُس بلّے سے دودھ کی رکھوالی بھی کرانے کو تیار ہیں۔ یہی ایک کاروباری آدمی کی ذہنیت ہوتی ہے۔وہ صحیح اور غلط میں نہیں فائدے اور نقصان کی حرکیات میں بروئے کا رآتا ہے۔خلیل جبران نے ایک لومڑی کا ذکر کیا ہے،جس نے صبح کے وقت اپنے سائے پر نظر ڈالی اور کہا تھا کہ مجھے ناشتے کے لیے
آج ایک اونٹ ملنا چاہئے۔ لومڑی نے اونٹ کی تلاش میں صبح تمام کی اور دوپہر کو پھر اپنا سایہ ہی پایا تو کہا کہ ’’میرے لیے ایک چوہا ہی کافی ہوگا۔‘‘جن کا سیاسی ورثہ ایان علی، ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن ہو اُنہیں مستقبل ، مورخ اور تاریخ میں مقام ایسی باتیں زیبا نہیں۔وہ اونٹ سے ناشتے کی خواہش پال کر آخر میںچوہے پر بھی اکتفا کرلیتا ہے۔ پہلے وہ ’’مفاہمت‘‘ کو ایک سیاسی فلسفے کا مغالطہ دے کر اپنی سیاسی فنکاری کا مظاہرہ کررہے تھے اور اب وہ اُسے ترک کرنے کا اشارہ دے کر اپنی سیاسی اداکاری کو طول دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حریف بدلنے کے علاوہ کچھ اور نہیںہے۔ بس ناشتے کے لیے بلّے نے اونٹ فراہم نہیں ہونے دیا۔ سیاست کی ایسی ارزل نفسیات میں تکبر کے الفاظ جچتے نہیں۔ پیروں میں اپنے حریفوں کو گرانے کے دعوے پھبتے نہیں۔ ایسے لوگوں کو اُن کے حال کے پردے پر نہیں بلکہ انجام کے آئینے میں دیکھنا چاہئے!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار الیاس احمد - جمعه 01 ستمبر 2017

حکومت سندھ نے نیب کے قوانین سندھ سے ختم کردیے مگر سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت سندھ نے جن کرپٹ افراد کو بچانے کے لیے نیب کے قوانین ختم کرنے کی قانون سازی کی تھی اس میں کامیاب نہ...

حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار

ملک اسد سکندر جھکنے پر مجبور ۔ آصف زرداری کی ایک اور کہانی سامنے آگئی! الیاس احمد - منگل 08 اگست 2017

جس کا ڈر تھا وہ سب کچھ ہوگیا ملک اسد سکندر بآلاخر اپنے سے زائد طاقتور شخص آصف علی زرداری کے سامنے جھک گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے جھکنا تھا تو پھر یہ تنازع ہی کیوں لیا؟ کیونکہ ملک اسد سکندر کو یہ پتہ تھا کہ آصف علی زرداری جب ضد پر آئیں تو سب کچھ قربان کرسکتے ہیں جو لوگ ...

ملک اسد سکندر جھکنے پر مجبور ۔ آصف زرداری کی ایک اور کہانی سامنے آگئی!

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!! الیاس احمد - هفته 05 اگست 2017

ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!!

فریال تالپر کے خواب چکنا چور، وزارت اعلیٰ کا منصب حسرت ہی رہی الیاس احمد - بدھ 26 جولائی 2017

جس طریقے سے کٹھ پتلی کی طرح حکومت سندھ کوچلایا جاتا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں جام صادق ، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم ایسے وزرائے اعلیٰ تھے جو مخلوط حکو مت چلاتے تھے یوں ان کی پوزیشن کمزور ہوتی تھی تاہم اس کے باوجود وہ اچھے فیصلے کر جا...

فریال تالپر کے خواب چکنا چور، وزارت اعلیٰ کا منصب حسرت ہی رہی

ملک اسد سکندر اور آصف زرداری میں جنگ چھڑ گئی! الیاس احمد - هفته 22 جولائی 2017

یوں تو سندھ میں کئی افراد آج بھی ایک طاقت رکھتے ہیں لیکن چند افراد ایسے ہیں جن کی طاقت کا اندازہ حکومت کو بھی نہیں ہوتا۔ ان میں ملک اسد سکندر بھی ایک ہیں۔ضلع جامشورو کے علاقہ تھانہ بولا خان سے تعلق رکھنے والے ملک اسد سکندر حقیقت میں ایسے ہی طاقتور ہیں جیسے قبائلی سردار ہوتے ہیں ...

ملک اسد سکندر اور آصف زرداری میں جنگ چھڑ گئی!

پی پی میں شمولیت سے انکار ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش الیاس احمد - هفته 17 جون 2017

پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان ک...

پی پی میں شمولیت سے انکار  ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش

وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا الیاس احمد - پیر 29 مئی 2017

2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن ...

وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

کھیل کا آخری راؤنڈ شروع‘پی پی کے کرم فرماؤں کا وزیراعلیٰ سندھ پرعدم اعتماد الیاس احمد - جمعرات 25 مئی 2017

پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2007ءکوکیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ،ساری حکمت عملی ،سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقراررکھا مگرآصف علی زرداری نے ان سب کوملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اص...

کھیل کا آخری راؤنڈ شروع‘پی پی کے کرم فرماؤں کا وزیراعلیٰ سندھ پرعدم اعتماد

آصف زرداری کے خلاف ثبوتوں کے انبار دوبارہ جیل جانے کے امکانات بڑھ گئے الیاس احمد - منگل 18 اپریل 2017

[caption id="attachment_44159" align="aligncenter" width="784"] نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی گمشدگی پر کئی افواہیں زیر گردش،آصف زرداری کی پریشانی عیاں ہوگئی ان تینوں لاپتہ افراد کی زندہ بازیابی ہویا مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں، صورتحال آصف زرداری کے لیے پریشان کن ہو...

آصف زرداری کے خلاف ثبوتوں کے انبار دوبارہ جیل جانے کے امکانات بڑھ گئے

آصف زرداری کے تین ساتھی اغواء‘ ماضی اور حال کی کہانی الیاس احمد - پیر 10 اپریل 2017

[caption id="attachment_44054" align="aligncenter" width="784"] آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں ،جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری ک...

آصف زرداری کے تین ساتھی اغواء‘ ماضی اور حال کی کہانی

صوبائی خزانے میں سالانہ 50ارب روپے سے زائد ہیراپھیری کا انکشاف الیاس احمد - بدھ 15 مارچ 2017

نیب نے پچھلے سال کوئٹہ سے گریڈ 20 کے افسر اور صوبائی سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارکر 65 کروڑ روپے نقد اور ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی املاک برآمد کرکے چونکا دیا تھا اور پھر اس کے اثاثوں کی تحقیقات میں کئی ہفتے لگ گئے ۔مجموعی طورپر مشتاق رئیسانی تین چار ارب روپے ظاہر کرچکا...

صوبائی خزانے میں سالانہ 50ارب روپے سے زائد ہیراپھیری کا انکشاف

عرفان مروت کی شمولیت:بلاول اور بہنوں میں ایکا۔زرداری پسپا الیاس احمد - جمعه 03 مارچ 2017

یہ بات تو اب راز نہیں رہی کہ آصف علی زرداری ایسے سیاستدان ہیںجن کو بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ آخری صفوں میں جگہ دی ۔ان کو کبھی اگلی صفوں میں آنے کی جرأت بھی نہیں ہوئی ،اور یہی وجہ تھی کہ آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے درمیان جھگڑوں کی خبریں آتی رہیں ،کیونکہ آصف زرداری نے ہمیشہ اپنے م...

عرفان مروت کی شمولیت:بلاول اور بہنوں میں ایکا۔زرداری پسپا

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر