وجود

... loading ...

وجود
وجود

جوابی بیانیہ۔۔ وسائل و امکانات

جمعه 24 مارچ 2017 جوابی بیانیہ۔۔ وسائل و امکانات

جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے اسلام، قومی سیاست اور عالمی صورت حال کے تناظر میں دو متداول سیاسی بیانیوں یعنی فرقہ وارانہ بیانیے اور تکفیری جہاد کے بیانیے کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر ان کی مذمت کی۔ ان کا یہ مشاہدہ بھی ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ ان دو بیانیوں کی آڑ میں دینِ اسلام اور تصورِ جہاد کو مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے مسلم معاشرے سیاسی خلفشار، سماجی انتشار اور دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ علما سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے ان دو بیانیوں کے مقابل ایک جوابی بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا، ایک ایسا جوابی بیانیہ جو اسلافی روایت سے جڑا ہوا بھی ہو، اور ہم عصر دنیا میں مسلم مفاد سے ہم آہنگ بھی ہو۔ ’’جوابی بیانیے‘‘ کی ترکیب سے کچھ مبصرین کو التباس ہوا ہے کہ اس سے مراد جناب جاوید احمد غامدی کا سنہ ۲۰۱۴ ء میں پیش کردہ جوابی بیانیہ ہے، حالانکہ وہ عالمی استعماری مفاد سے ہم آہنگ اور اسلافی روایات کے رد پر بننے والا بیانیہ ہے۔ غامدی صاحب کا بیانیہ دراصل نظریہ پاکستان کے پہلے سے موجود بیانیے کا جوابی بیانیہ ہے اور اس کا اصل مقصد اسلام اور سیاسی طاقت کے مابین ہر تعلق کو مذہبی دلائل سے منقطع کر دینا ہے۔ ہم اس بیانیے کا تجزیہ سہ ماہی ‘‘جی’’ کی اشاعت میں تفصیل سے عرض کر چکے ہیں۔
گزارش ہے کہ ‘‘بیانیے’’ سے عموماً قومی اور تہذیبی سطح کا سیاسی نظریہ مراد لیا جاتا ہے، اور اس وقت ہماری یہ ضرورت نظریہ پاکستان سے پوری ہو رہی ہے۔ گیارہ ستمبر سنہ ۲۰۰۱ء کے بعد پیدا ہونے والی علاقائی اور عالمی سیاسی تبدیلیوں میں پاکستان اور نظریہ پاکستان شدید دباؤ کا شکار ہو گئے، اور امریکہ، یورپ اور بھارت میں جامعاتی ’’تحقیق‘‘ کا ایک بڑا موضوع بن گئے اور میڈیا پر بھی مسلسل گفتگو کا آغاز ہوا۔ کسی ملک یا سیاسی مسئلے کا اچانک سے ’’تحقیق‘‘ کا اور میڈیا میں بیک وقت موضوع بن جانا بلا وجہ نہیں ہوتا، اور اس کے پیچھے عالمی استعماری ایجنڈا کارفرما ہوتا ہے۔ جامعاتی ’’تحقیق‘‘ کا مقصد نطریہ پاکستان کو توڑ کر پاکستانی ریاست کے جواز کو ختم کرنا ہے تاکہ استعماری ایجنڈے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اور یہ عالمی ایجنڈا داخلی ہمنوائی کے بغیر پورا ہونا ناممکن ہے۔ غامدی صاحب کے بیانیے کا اصل تناظر یہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان پر ’’متحدہ‘‘ عالمی ڈسکورس زبردست انتشار کا شکار ہو کر لغویت کا شاہکار بن گیا ہے، اور کوئی ایسے نتائج سامنے نہیں لا سکا جو کسی استعماری پالیسی کو واضح بنیاد فراہم سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیانیے یا نظریے کا تاریخ اور قومی مفاد سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بیانیے یا نظریے کا کسی بھی معاشرے کے مجموعی تصور حیات سے ہم آہنگ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس وقت نظریہ پاکستان کی اساس کو چھیڑے اور چھوڑے بغیر اس کی تعبیری توسیع کی ضرورت سے انکار نہیں، اور جامعہ نعیمیہ کے خطاب میں اسی پر زور دیا گیا ہے۔
گزارش ہے کہ بیانیے کی ضرورت اور نئے یا جوابی بیانیے کا سوال برصغیر کی مسلم تاریخ میں گزشتہ دو صدیوں سے چولے بدل بدل کر مسلسل ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی پورا بیانیہ ایسے مکمل فکری لباس میں سامنے نہیں آ سکا جو بیک وقت ہم عصر دنیا اور مسلم مفاد سے ہم آہنگ بھی ہو، اور ہماری روایت اور تاریخ میں بھی جڑیں رکھتا ہو۔ ہماری کامیابی ابھی جزوی نوعیت کی ہے اور اس سے اغماض خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ عصر حاضر میں ہمارے بیانیے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ سے کبھی تاریخ کا دامن چھوٹ جاتا ہے، اور کبھی اس کے فکری نسب پر مذہبی جھگڑے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دو قومی نظریے کے فکری نسب پر شدید مذہبی نزاع ہوا، اور پاکستان بننے کے بعد اس نظریے کی ہم عصر دنیا سے عدم مطابقت کو موضوع بنایا گیا۔ اس وقت نظریہ پاکستان پر ہونے والی تنقید میں یہ دونوں پہلو شامل ہو گئے ہیں۔ ’’نئی توحید‘‘ کے حاملین اور مذہبی متجددین نظریہ پاکستان کو مذہبی بنیادوں پر رد کرتے ہیں، اور سیکولر اور لبرل حضرات اس کو ہم عصر تاریخ سے غیرمطابق ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ایسی جگہ اب مزید سکڑ گئی ہے جہاں کھڑے ہو کر نظریہ پاکستان کا دفاع کیا جا سکے اور یہی وہ پیچیدہ صورت حال ہے جس میں جوابی بیانیے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ گزارش ہے کہ یہ دونوں مواقف درست نہیں ہیں اور نظریہ پاکستان کو تاریخی تناظر میں سمجھنے میں ناکامی سے پیدا ہوئے ہیں۔
تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دو قومی نظریہ برصغیر کی مسلم تاریخ میں بہت گہری جڑیں رکھتا ہے۔ شاہ صاحب کا دار الحرب کا فتویٰ، تحریکِ مجاہدین، جنگِ آزادی اور اس میں جہاد کا فتویٰ، اور جنگ آزادی کے بعد خلافت اور جہاد پر سامنے آنے والے جدید مواقف، سنہ ۱۹۰۶ ء میں مسلم لیگ کا قیام اور جداگانہ انتخاب کا مطالبہ، تحریکِ خلافت، قرار داد پاکستان اور دو قومی نظریے کا ظہور، تحریک پاکستان، قیام پاکستان، قراد مقاصد کی تشکیل اور بالآخر اس کی آئین میں شمولیت، بنیادی طور ایک ہی سوال کے جواب میں سامنے آنے والے مختلف عملی اور فکری مظاہر ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہمارے نزدیک سیاسی طاقت سے کیا مراد ہے؟ ہمارے تصور میں سیاسی شناخت کا معنی کیا ہے؟ اور سیاسی طاقت کی ہیئت اور افعال کیا ہیں؟ مختصر یہ کہ ہماری سیاسی اقدار کیا ہیں اور ان سے جواز پانے والا اجتماعی عمل کیا ہے؟ یہ سوال اس قدر اہم ہے کہ اس پر ہونے والی جدوجہد نے نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ برصغیر ہی کی تقدیر کو تبدیل کر دیا۔ اس سوال پر جو فکری اور عملی مظاہر اب تک سامنے آئے ہیں ان میں یہ بات داخل ہے کہ جدید عہد کے دستیاب سیاسی تصورات سے ہمیں کوئی مسئلہ ہے اور وہ خاصی سنگین نوعیت کا ہے، اور ہم وہ تصورات من و عن قبول نہیں کر سکتے۔ ہمارا یہ موقف بن نہیں سکتا تھا اگر اس کے پس منظر میں دینی تعلیمات موجود نہ ہوتیں۔
بیانیے کا مسئلہ اس لیے بھی الجھ گیا کہ ’’حکومت الٰہیہ’’ اور خلافت پر داد سخن دینے والے علما اور مفکرین جدید افکار کے زیر اثر تھے یا ان سے متاثر تھے، روایت سے برگشتہ یا نالاں تھے، اور جدید دنیا کو سمجھنے کے فکری وسائل بھی نہیں رکھتے تھے۔ دینی تعلیمات کی جدید تشریحات سے یہ مسئلہ الجھتے الجھتے غتربود ہو گیا۔ اور اب اسی ڈھرے پر چلتے ہوئے اس کے حل کی توقع عبث ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو برس کے مذہبی مباحث سے کوئی ثمرآور، حق مرکز اور تاریخ آگاہ فکر سامنے نہیں آ سکی۔ اس آفت کی وجہ بھی سامنے ہے لیکن ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ کوئی نظامِ فکر اور انسانی تہذیب ’’جز‘‘ اور ’’کُل‘‘ کا تعلق طے کیے بغیر نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ باقی رہ سکتی ہے۔ فکر ’’کل‘‘ میں کام کرتی ہے، اور افعال ’’جز‘‘ میں واقع ہوتے ہیں بھلے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے نظام فکر میں کل اور جز کا تعلق کیا ہے اور کیسے طے ہو گا؟ ہماری روایت میں اصول فقہ اسی ضرورت سے پیدا ہوا تھا۔ اصول یعنی تھیوری ہی وہ آنکھ ہے جو بدلتی ہوئی تاریخ پر نظر رکھتی ہے، اور اس تاریخ کی اپنی کلیات سے نئی نئی نسبتوں کو قائم کر کے دکھاتی رہتی ہے، اور یہ نسبتیں سلبی بھی ہو سکتی ہیں اور ایجابی بھی۔ تشریحات میں یہ سوال غائب ہوتا ہے، کیونکہ تشریح کسی سوال سے پیدا نہیں ہوتی، فہم کی ضرورت کے تابع ہوتی ہے۔ ہم عصر تاریخ کی واقعیت ہمارے مذہبی متون کا مصداق نہیں ہے، لیکن ہماری جدید مذہبی تشریحات کا مقصد یہی ثابت کرنا ہے۔
بیانیہ یا قومی سیاسی نظریہ ایک وضع کردہ شے ہے اور دو چیزوں کا براہ راست جواب دیتا ہے۔ ایک یہ کہ بیانیہ معاشرے کی سیاسی شناخت کو حتمی طور پر متعین کر دیتا ہے۔ شناخت کی بنیاد تقدیری بھی ہو سکتی ہے اور ارادی بھی۔ رنگ، نسل اور زبان پر بننے والی شناختیں تقدیری نوعیت کی ہیں جبکہ نظریہ پاکستان میں ظاہر ہونے والی شناخت ارادی اور تاریخی ہے۔ جدید عہد میں شناخت کا بنیادی کام یہ ہے کہ یہ سیاسی طور پر ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ میں امتیاز پیدا کر کے ایک بنیادی حوالے کا کام دیتی ہے، لیکن سیاسی عمل کی بنیاد نہیں ہوتی۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کا سیاسی عمل اسی شناخت کو قائم کرنے کی کامیاب جدوجہد تھی، اور یہی شناخت پاکستان کا بنیادی ترین حوالہ ہے۔ لیکن اگر سیاسی شناخت، بھلے وہ تقدیری ہو یا تاریخی، سیکولر ہو یا مذہبی، سیاسی عمل کی بنیاد بن جائے تو معاشروں کا سیاسی عمل فسطائیت کی شکل اخیتار کر لیتا ہے اور انسانی معاشرے انتشار اور جنگ و جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی طاقت میں شناخت اولیت رکھتی ہے کیونکہ یہ معاشروں کو قوم بناتی ہے اور ان کی سیاسی زندگی میں بنیادی حوالے کا کام کرتی ہے۔ شناخت نظریے کا خاص الخاص سیاسی پہلو ہے۔
سیاسی طاقت کا دوسرا مسئلہ اجتماعی عمل کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ اور یہ بنیاد صرف اور صرف عدلِ اجتماعی کی اقدار سے حاصل ہوتی ہے، اور عدل اجتماعی نظریے کا خاص الخاص معاشی پہلو ہے۔ عصر حاضر کے فکری اور استعماری تناظر میں دو قومی نظریے سے قرارداد مقاصد تک کا سفر ہر لحاظ سے غیرمعمولی ہے، لیکن جزوی ہے۔ قرارداد مقاصد نے یہ طے کر دیا کہ سیاسی طاقت اپنی ریاستی تشکیل میں کیا نہیں کرے گی، لیکن اس امر پر خاموش ہے کہ کیا کرے گی۔ جوابی بیانیے کے لیے نظریہ پاکستان کی تعبیری توسیع میں جدید ریاست کی ہیئت اور عدل اجتماعی کی اقدار کو اظہار دینا ضروری ہے ورنہ ’’جوابی بیانیے‘‘ کی ضرورت عدم استحکام کا باعث بنتی رہے گی۔ بیانیہ یا نظریہ جب تک سیاسی اور معاشی پہلوؤں کو محیط نہ ہو، نظریہ کہلانے کی ضروری شرائط پر پورا نہیں اتر سکتا، اور نظریہ پاکستان کو اس وقت یہی چیلنج درپیش ہے۔
ضمناً عرض ہے کہ برصغیر میں تکفیری جہاد کا بیانیہ اور فرقہ وارانہ بیانیہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں سامنے آئے جو مسلم سیاسی طاقت کے زوال اور سماجی انتشار کا زمانہ ہے اور جب ہماری پوری تہذیب ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی۔ جوابی بیانیہ اس ملبے کے ڈھیر کی مجاوری سے ملنے کا نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ماقبل زوال و انتشار اپنی سیاسی تاریخ اور دینی روایت کی طرف بامعنی واپسی کی ضرورت ہے جس میں استعماری عہد کا فکری حساب بیباق کرنا شرط اول ہے۔


متعلقہ خبریں


نواز شریف اوراسحاق ڈار کو بچانے کی کوششیں ایچ اے نقوی - جمعه 01 ستمبر 2017

سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی اورمریم نواز ،کیپٹن صفدر ،حسن اور حسین نواز کے خلاف ریفرنس عدالت میں جمع کرانے کے حوالے سے نیب کو واضح ہدایات کے باوجود ان محکموں میں موجود نواز شریف کے بعض نمک خوار افسران مبینہ طورپر عدالت کے حکم کی سرتابی کرتے ہوئے اب بھی ان کو سزا سے بچانے کے...

نواز شریف اوراسحاق ڈار کو بچانے کی کوششیں

نوازشریف محاذ آرائی کے راستے پر وجود - هفته 12 اگست 2017

سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور کی جانب گامزن ہیں ، جمہوریت ریلی کی قیادت کرتے ہوئے وہ آج گوجرانوالہ سے لاہور روانہ ہوں گے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ روز مقررہ وقت 10بجے سے حسب معمول ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے جہلم کے...

نوازشریف محاذ آرائی کے راستے پر

معزز ججوں نے نواز شریف کو گھر بھجوادیا، کیا آپ کو منظورہے؟نوازشریف کا ریلی میں سوال!!! رانا خالد محمود - جمعه 11 اگست 2017

میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہلی کے خلاف ریلی لے کر دو روز سے سڑکوں پر ہیں ۔ ان کا قافلہ راولپنڈی سے لاہور کی جانب گامزن ہے، نوازشریف ریلی کے دوسرے روز 12 بجے کے قریب راولپنڈی سے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور کی جانب روانہ ہوئے، روانگی سے قبل راولپنڈی پنجاب ہائوس میں ...

معزز ججوں نے نواز شریف کو گھر بھجوادیا، کیا آپ کو منظورہے؟نوازشریف کا ریلی میں سوال!!!

6 الزامات نواز شریف کا پیچھا کرتے رہیں گے!!!! شہلا حیات نقوی - منگل 08 اگست 2017

نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلسل یہ بات دہرارہے ہیں کہ انھیں فخر ہے کہ ان کو کرپشن کے الزام میں نااہل قرار نہیں دیاگیا بلکہ ان کی معمولی سی بے ضرر سی غلطی ان کی نااہلی کاسبب بنی ۔ اس طرح کی باتیں کرکے دراصل نواز شریف اپنے ماتھے پر لگے سیاہی کے داغ کو چھپان...

6 الزامات نواز شریف کا پیچھا کرتے رہیں گے!!!!

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!! الیاس احمد - هفته 05 اگست 2017

ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!!

وزیراعظم عہدے سے سبکدوش ، وفاقی کابینہ تحلیل ۔قائم مقام وزیراعظم کا نام طے کر لیا گیا! وجود - جمعه 28 جولائی 2017

عدالت عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وزیراعظم نوازشریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تحفظات کے باوجود تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ ترج...

وزیراعظم عہدے سے سبکدوش ، وفاقی کابینہ تحلیل ۔قائم مقام وزیراعظم کا نام طے کر لیا گیا!

نوازشریف کی سیاسی زندگی کا باب ختم ۔شریف خاندان بتدریج سیاسی کھیل سے باہر ہوجائے گا! نجم انوار - جمعه 28 جولائی 2017

وزیراعظم نوازشریف کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے تا حیات نااہل قرار دیے جانے کے بعد اب اُن کی سیاسی زندگی کی کتاب بھی مستقل بند ہو نا شروع ہو جائے گی۔ وہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد مسلسل اپنے سیاسی فیصلوں میں ناکام ہوتے چلے گئے اور نوشتہ دیوار پڑھنے میں مسلسل ناکام رہے۔ اُن کے پاس...

نوازشریف کی سیاسی زندگی کا باب ختم ۔شریف خاندان بتدریج سیاسی کھیل سے باہر ہوجائے گا!

پاناما فیصلے پر وزیراعظم کی قریبی رفقاء کے ساتھ مشاورت وجود - جمعه 28 جولائی 2017

پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے۔ اور اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے قریبی ساتھیوں اور وزراء سے مشاورت شروع کردی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف 27 جولائی (جمعرات) کی شام 4 بجے مالدیپ کا دورہ مکمل کرکے نور خان ائیر بیس پہنچے تھے جہاں ...

پاناما فیصلے پر وزیراعظم کی قریبی رفقاء کے ساتھ مشاورت

جے آئی ٹی کے سامنے وزیرا عظم کی پیشی،بیان بازی کابازار گرم شہلا حیات نقوی - هفته 17 جون 2017

وزیراعظم نواز شریف جمعرات کو پاناما پیپرز کے دعوؤں کے مطابق اپنے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوگئے۔وزیراعظم نواز شریف کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات...

جے آئی ٹی کے سامنے وزیرا عظم کی پیشی،بیان بازی کابازار گرم

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا ایچ اے نقوی - منگل 23 مئی 2017

وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا

بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے سجن جندال پاکستان اسٹیل خریدنا چاہتے ہیں وجود - هفته 20 مئی 2017

[caption id="attachment_44588" align="aligncenter" width="784"] سجن جندال بھارت کے علاوہ برطانیہ میں بھی اسٹیل ٹائیکون کے نا م سے جانے جاتے ہیں، نواز شریف سے گزشتہ ماہ مری میں خفیہ ملاقات ہوئی تھی‘ فواہوں کوبھارت کے معروف صحافی کے اس دعوے سے مزید تقویت ملی کہ ہم وطن اسٹیل ٹائیکون...

بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے سجن جندال پاکستان اسٹیل خریدنا چاہتے ہیں

لاشعوری دباؤ وجود - هفته 29 اپریل 2017

آدمی حیران ہو جاتا ہے۔کیا واقعی وزیراعظم نوازشریف نے سجن جندال سے اس موقع پر ملاقات کی سبیل نکالی ہے؟ اُن کے ذہن میں کیا رہا ہوگا؟ظاہر ہے کہ ہم فلسفی برٹرینڈ رسل کے تشکیکی مضامین تو نہیں پڑھ رہے جنہیں اُٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکے۔یہ مری کی ملاقات ہے۔ جس کی گرمی ملک بھر...

لاشعوری دباؤ

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر