وجود

... loading ...

وجود
وجود

اقدار کا مسئلہ (۱)

پیر 06 مارچ 2017 اقدار کا مسئلہ (۱)

اگر بات کو نہایت مختصر اور خلاصتاً کہنا چاہیں تو یہ کہ مذہب دو چیزوں کا مجموعہ ہے: ایک حقائق اور دوسرے اقدار کا، اور یہیں سے ایمان اور عمل صالح کے دو بنیادی ترین مذہبی مطالبات پیدا ہوتے ہیں۔ حقائق کا تعلق اصلاً عالم غیب سے ہے، اور اقدار کا تاریخ سے اور یہ بالواسطہ انسان ہے، یعنی انسان حقائق اور اقدار کا براہ راست مخاطب ہے۔ حقائق انسان سے ”عالم نامعلوم“ کے بارے میں کچھ بیانات کو مان لینے کا مطالبہ ہے، اور اقدار ”عالم معلوم“ میں کچھ ہدایات و احکام پر عمل کرنے کا مطالبہ ہے۔ حقائق انسان کے ماننے اور جاننے کی اساس اور ان کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ رکھتے ہیں کیونکہ ماننے اور جاننے کا کام باہم غیرمتعلق نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مذہبی حقائق کا براہ راست مخاطب انسانی شعور ہے اور ان حقائق کو خبرِ غیب کے طور پر “مان” لینے کے مطالبات بھی انسانی شعور ہی سے ہیں۔ چیزوں کو ماننے اور جاننے کے ساتھ ساتھ، دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا دوسرا اہم ترین مسئلہ ہر گھڑی درپیش عمل کا ہے۔ مذہبی اقدار انسان سے ایک خاص ہیئت میں عمل کے کچھ قطعی مطالبات رکھتی ہیں، اور ان مطلوبہ اعمال کی نوعیت تاریخی اور غیر تاریخی دونوں طرح کی ہے۔ مذہبی حقائق اور اقدار کی گہری اور مفصل نسبتوں کو نظرانداز کیے بغیر، یہ کہنا ضروری ہے کہ حقائق اور اقدار باہم عین یک دیگر نہیں بلکہ غیر یک دیگر ہیں، کیونکہ انسانی شعور اور عمل غیر یک دیگر ہیں، عین یک دیگر نہیں ہیں۔ مذہبی حقائق، انسانی شعور اور علم کے موضوع کو فی الحال مو¿خر کرتے ہوئے، اقدار کے حوالے سے کچھ گزارشات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں، اور ہم یہاں ”اقدار“ کو وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہے ہیں۔
انسانی زندگی میں عمل ناگزیر اور اس کی نوعیت فوری ہے، اور یہ قابل التوا نہیں۔ عمل کی ناگزیریت کے باعث اقدار کا سوال بھی ہر گھڑی روبرو اور ناگزیر ہے۔ عمل میں اقدار کی ضرورت فوری اور نوعیت ایمرجنسی کی ہوتی ہے۔ چونکہ عمل کے بغیر انسانی زندگی ممکن نہیں ہے، اس لیے انسان کو درپیش عمل کے لیے کوئی نہ کوئی بنیاد بھی لازمی درکار ہے۔ عام طور انسانی عمل کی بنیاد تین ذرائع سے فراہم ہوتی ہے: مفاد، مزاج، اور قدر۔ چونکہ مفاد اور مزاج کو انسانی عمل کی بنیاد بنا کر انسانی معاشرے کو انتشار سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہتا، اس لیے کسی متبادل اساس کے لیے انسان تاریخ اور مذہب کی طرف دیکھتا ہے، اور وہاں سے ”اقدار“ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ یقیناً ہستی اور حیات کے طویل انسانی تجربے اور بصیرت کا ذخیرہ ہے، اور انسان اس تاریخی تجربے اور بصیرت سے اقدار کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ سے ”اقدار“ اخذ کرنے کی انسانی کوشش دَوری ہے، اور اس میں مزاج اور مفاد ”تاریخی تجربے“ اور ”تاریخی بصیرت“ کے ناموں سے تجلیل حاصل کرتے ہوئے پھر سے انسانی عمل کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ مزاج اور مفاد کو عمل کی بنیاد بنانا اور ”تاریخی تجربے“ اور ”تاریخی بصیرت“ سے عمل کی اساس فراہم کرنا ایک ہی بات ہے۔ اس میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ انسان خود ہی اپنے عمل کے لیے اقدار متعین کر سکتا ہے اور حالات کے مطابق ان میں رد و بدل بھی کر سکتا ہے۔
وسیع تر معنوں میں اقدار کا مسئلہ خیر و شر کے سوال سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ کانٹ کے بقول human condition یعنی انسانی احوالِ ہستی radical evil سے مملو ہیں۔ یعنی شر انسانی حالات کی بُنت میں داخل ہے یا اس میں ایسے گندھا ہوا ہے کہ اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شر کا انسانی احوال میں ساری ہونا اور حالات میں جاری ہونا ناگزیر اور بدیہی امر ہے۔ خیر و شر کے گہرے شعور اور احساس کے ہوتے ہوئے بھی انسانی عمل کے لیے ممکن نہیں کہ وہ شر کا مکمل اظہار نہ بنے۔ انسان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانی عمل کو شر کا مکمل اظہار بننے سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ مفاد اور مزاج کو عمل کی اساس اور مقصود بننے سے روک دیا جائے، اور اقدار سے عمل کی اساس اور مقصود فراہم کیا جائے۔ انسانی اعمال کے لیے اقدار کی ضرورت متفق علیہ ہے لیکن ان کی نوعیت، ذرائع اور منابع پر اختلافات بہت بنیادی اور مکمل ہیں۔
”فطری دنیا“ شر سے خالی اور ”انسانی دنیا“ شر سے مملو ہے۔ انسان رہتے ہوئے ان حالات اور احوال سے کوئی مفر نہیں۔ خیر و شر کے مسئلے سے چھٹکارے کا واحد راستہ عین اس ”دنیا“ سے چھٹکارا ہے جو شر کی آماجگاہ ہے۔ اس معاملے میں مذہبی آدمی اور غیر مذہبی آدمی کا تجربہ اور نتیجہ بھی ایک ہی ہے، اور محرکِ عمل بھی ملتا جلتا ہے، لیکن طریقہ¿ کار قطعی مختلف ہے۔ اگر انسان مذہبی حقائق کو تسلیم کر لے، اور اپنے اعمال کو دینی اقدار پر قائم کر لے، تو وہ دنیا سے ”رستگاری“ حاصل کر سکتا ہے۔ عمل صالح تاریخی قوتوں کے علی الرغم دنیا سے غیریت اور اس سے ایک طرح کا انقطاع ہے، کیونکہ یہ اپنی اساس اور عواقب میں دنیوی نہیں ہے۔ جدید انسان بھی شر سے مملو عین اسی دنیا سے ”رستگاری“ چاہتا ہے، لیکن اقدار کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ہیئت ہستی کو تبدیل کر کے اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے، اور وہ حل یہ ہے کہ “دنیا” سے “نیچر” کی طرف منتقل ہوا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا کو خیر و شر کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے، اور حیات و ہستی کو amoral مان لیا جائے، اور خیر و شر کی بات بیک کرنے کو ہی شر قرار دیا جائے اور اس تقدیر پر مذہب اور مذہبی آدمی شر ہے۔ پھر amoral ہونے کا آدرش صرف دو صورتوں میں قابلِ حصول ہے۔ ایک یہ کہ جدید انسان خود کو مکمل طور پر naturalize کر لے، یعنی خود کو ”دنیا“ سے ”نیچر“ میں منتقل کر لے، اور حیاتیاتی دنیا کے ماڈل پر اپنی انفرادی اور اجتماعی حیات کو استوار کرے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ خود کو مکمل طور پر mechanize کر لے، یعنی مادی نیچر کے قوانین کی بنیاد پر اپنی حیات و ہستی کی تشکیل کرے۔ جدید انسان نے ان دونوں کے حصول کی بیک وقت کوشش کی ہے۔
عرض یہ ہے کہ naturalization جدید انسان کی ”شریعت“ اور mechanization جدید انسان کا ”تصوف“ ہے۔ پہلی صورت میں نامیاتی فطرت میں پایا جانے والا حیوان اس کا آئیڈیل ہے، اور دوسری صورت میں نیچر کے میکانکی اصول اس کا آئیڈیل ہے۔ بقائے اصلح وغیرہ کے حیاتیاتی افکار ”فطرت“ سے ”سائنسی“ طور پر اخذ کر کے انہیں انسان کے انفرادی اور اجتماعی عمل کی بنیاد بنانے کوشش کی گئی۔ اور جدید انسان کے عمل اور رویوں میں میکانیت مشین کے ماڈل سے حاصل ہوئی۔ مزاج کے تتبع میں حیوانیت اور مفاد کے تعاقب میں میکانیت کا غالب آ جانا لابدی ہے۔ مذہب اور مذہبی اقدار سے انکار کے بعد، خیر و شر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید انسان کے پاس یہی دو راستے ہیں، اور ان دو راستوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ انسان ہونے سے دستبردار ہو جائے، اور ایک “نیا انسان” بننے کی کوشش کرے۔ اس دستبرداری کے ساتھ خیر و شر کا مسئلہ “حل” تو نہیں ہوتا، لیکن ختم بھی نہیں ہوتا۔ پوسٹ ہیومن، پوسٹ ٹرتھ، اور نیو نارمل وغیرہ کی باتیں اسی تناظر میں سمجھی جا سکتی ہیں، کیونکہ خیر و شر کا مسئلہ اقدار کے بغیر حل نہیں ہوتا اور اقدار مذہب کے سوال کو مرنے نہیں دیتیں۔
اقدار کا سوال انسان کی فطری اور مطلق آزادی سے جڑا ہوا ہے اور اگر انسان کو یہ مطلق آزادی میسر نہیں تو اقدار کا سوال ہی بے معنی ہے۔ انسان کی اس مطلق آزادی کو جناب احمد جاوید صاحب کے ایک قول کہ ”انسان اپنا غیر ہے، عین نہیں“کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ متبادر مفہوم یہ ہے کہ آنجناب ”انسان“ کے جس تصور کو درست سمجھتے ہیں وہ اس کا غیر ہے، عین نہیں۔ لیکن یہ مراد بھی نہایت واضح ہے کہ انسان اپنا عین بھی ہے اور غیر بھی ہے۔ انسان کا اپنا ”غیر“ یا ”عین“ ہونا فطری نہیں ہے، ارادی ہے، یا سادہ لفظوں میں انسان ”قدرتی اور تاریخی“ طور پر اپنا عین ہے اور ”ارادی“ طور پر اپنا غیر ہے۔ مطلق انسانی آزادی سے مراد انسان کا یہی اختیار ہے کہ کیا وہ اپنا عین ”رہنے“ کا فیصلہ کرتا ہے یا غیر ”بننے“ کا۔ اگر انسان اپنے مفاد اور مزاج کی ترجیحات پر اقدار سے دستکش ہونے کا فیصلہ کرے تو وہ اپنا عین ہے اور اس کا وجودی سفر مزاج اور مفاد کی قطبیت میں ہی طے ہوتا ہے، اور اگر وہ دینی اقدار کو اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے تو اپنا غیر ہے۔
انسان کی مطلق آزادی سے مراد یہی سوال ہے کہ کیا انسان اپنے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے؟ یعنی کیا انسان کے لیے کوئی ”جگہ“، کوئی ایسا ”موقف“ قابل تصور ہے کہ جس میں وہ اپنے بالمقابل ہو کر اس سوال کا سامنا کر سکے؟ یعنی کیا ”میں“ خود سے باہر نکل کر اپنے سامنے موجود ایک دوسری ”میں“ کے لیے اقدار کا انتخاب کر سکتا ہوں؟ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ”میں“ خود کا عین بن کر اقدار پر نظر ڈالتی ہے تو اقدار کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسی صورت میں اس کا انتخاب مزاج اور مفاد ہی کی توسیع ہو گی۔ اقدار کا مسئلہ ”اپنا غیر“ ہونے کی جگہ پر کھڑے ہو کر ہی حل ہو سکتا ہے۔ اپنے بھی خلاف شہادت دینے کی جو الوہی تلقین ہے، وہ انسان کے لیے اپنا ”عین“ بن کر قابل تصور نہیں، صرف اپنا ”غیر“ بن کر ہی ممکن ہے۔ یہ ترفع انسان کو کسی عمل اور فکر سے نصیب نہیں ہوتا، صرف ہدایت سے ممکن ہے۔
اقدار کے مسئلے پر عموماً دو موقف سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ اقدار اضافی ہیں اور انسانی تجربے اور بصیرت سے حاصل ہوں گی اور زمانے کے ساتھ بدلتی چلی جائیں گی۔ تجربے اور بصیرت کی یافت کو اقدار کہنا محض تکلف ہے، کیونکہ یہ عین مفاد اور مزاج کو عمل کی بنیاد بنانے کی تزویرات ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اقدار غیراضافی اور مطلق ہیں، اور عطا شدہ ہیں۔ اول الذکر موقف سیکولر اور غیرمذہبی ہے، جبکہ مو¿خر الذکر مذہبی موقف ہے۔ اقدار کا مسئلہ اس وقت تک لاینحل ہے جب تک انسان خیر و شر اور حق و باطل کے بارے میں کوئی بنیادی ”موقف“ اختیار نہ کر لے۔ اور یہ بنیادی موقف سیکولر اور مذہبی ہونے کا ہی ہے۔ سیکولر ”اقدار“ بنیادی طور پر قانونی اور تنظیمی نوعیت کے ضوابط کی تفصیلات پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر ”تنظیمی اخلاقیات“ بھی کہا جاتا ہے۔ تنظیمی اخلاقیات دراصل سیاسی طاقت کی ایک فرع ہے، اور انسانی عمل کی سنگین کراہت کو شائستگی اوڑھائے رکھنے کا مفصل طریقہ¿ کار ہے۔
خیر و شر کے معاملے میں مذہبی موقف دو ٹوک ہے۔ ”سیئآت اعمالنا“ کا منبع ”شرور انفسنا“ ہے، اور انسان کے پاس کوئی ذریعہ یا طاقت ایسی نہیں ہے جو اُسے شر کا مکمل آلہ کار بننے سے روک سکے۔ نفس انسانی کے اسی شر سے بچنے کے لیے انسان کو اقدار کی ضرورت ہے۔ اور جب انسان اقدار کو تسلیم کر لیتا ہے، تو اسے ان اقدار کا عین بننے کی جدوجہد درپیش ہوتی ہے اور جو امتثال امر اور تائید الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ حضور علیہ الصلوة و السلام کی سکھائی ہوئی دعاو¿ں میں سے ایک ہے کہ ”اے اللہ! مجھے طرفة العین کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا“۔ اللہ کی نصرت کے بغیر انسان کا ”شرور انفسنا“ سے بچنا محالات میں سے ہے۔ انسان اگر اپنا عین ہے تو شر سے مملو نفس کا اور حق سے انکاری عقل کا عین ہے، اور جدید انسان اسی آئیڈیل سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کے شر سے محفوظ رہنے اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔(جاری ہے)
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر