وجود

... loading ...

وجود
وجود

تخیل

جمعه 03 مارچ 2017 تخیل

تخیل کے دو مقصد ہیں: صورت کو آنکھ کی، اور معنی کو عقل کی تحویل سے نکالنا!یہ دونوں کام فزکس سے ضروری واقفیت کے بغیر ممکن نہیں ہیں!‘‘فزکس سے ہماری ’’ضروری واقفیت‘‘ صرف اس قدر ہے کہ اس نے انسان کو ظہوری عالمِ صورت سے ہٹا کر اپنے پیدا کردہ ایجادی عالم صورت میں ملفوف کر لیا ہے۔ ظہوری عالمِ صورت فطری اور نامیاتی تھا، جبکہ ایجادی عالم صورت ٹھوس اور میکانکی ہے۔ فزکس کے قائم کردہ ایجادی عالم صورت کی حیثیت اب ایک ایسے بفر (buffer) کی ہے جو انسان اور خارجی فطرت کے درمیان قائم ہے، اور اس میں رہتے رہتے انسانی آنکھ صورت کے نامیاتی پن سے محروم اور عقل معنی کے زندہ پن سے ناواقف ہو چکی ہے۔ اب انسانی آنکھ کیمرے اور عقل مدر بورڈ کے سرکٹوں کی طرح کام کرتی ہے، اور ظہوری عالمِ صورت انسان سے ‘‘ماورا’’ کی طرح بہت دور ہٹ چکا ہے۔ فزکس کے پیدا کردہ ایجادی عالمِ صورت میں آنکھ کا اندازِ دید میکانکی ہے، اور یہ کیمرے کی طرح سب کچھ دیکھتی ہے لیکن اسے ‘‘نظر’’ کچھ نہیں آتا۔ اور عقل نے شعور کے in vivo معنی کو سائنس کے in vitro معنی میں تبدیل کر دیا ہے، یعنی فزکس نے صورت کو آنکھ میں اور معنی کو شعور میں حنوط کر دیا ہے۔ صورت اور معنی کو اس زبردست اور غیر فطری انجماد اور میکانیت سے تخیّل کی قوت سے بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تخیّل کیا ہے؟ ذرا ٹھہر کے اس کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے عقل اور تخیّل کا سادہ اور سطحی سا موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ عقل ایک انجن کی طرح ہے، طاقتور، تیز رفتار، پیدا کار، اور انتھک۔ یہ انجن جس پٹڑی پر چلتا ہے اس کی ہر چیز نپی تلی ہے۔ پٹڑی کی ساخت، اس کی سمت، اس کا حدود اربعہ، اس کے ٹھہرنے اور چلنے کے مقام، اس کے اشارے، اس کے سگنل، اس کی رفتار وغیرہ سب طے شدہ ہیں۔ جہاں پٹڑی ختم ہو جاتی ہے، عقل کا انجن بھی رک جاتا ہے۔ عقل کا انجن کسی دوسرے طریقِ سفر اور طریقۂ سفر کو نہ قبول کرتا ہے نہ استعمال کر سکتا ہے۔ عقل کا انجن پہلے سے طے شدہ تعینات اور تحدیدات میں رہ کر ہی کام کر سکتا ہے، اور اگر انہیں اچانک سے بدل دیا جائے تو انجن ہی رک جاتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ تخیّل بھی ایک انجن ہے، لیکن وہ ہستی اور سفر کے اس جبر کو قبول نہیں کرتا۔ تخیل سفر نصیب تو ہے لیکن اپنا راستہ بھی اپنی گرہ میں رکھتا ہے۔ تخیّل کا انجن پٹڑی پر سفر کرتے کرتے اچانک سڑک پر بھی محوِ سفر ہو جاتا ہے۔ چاہے تو گھڑی بھر کے لیے کچی سڑک پر بھی خاک اڑا لیتا ہے اور چاہے تو پانیوں کے اوپر چلتے چلتے وہ پانیوں کے اندر بھی غوطہ لگا لیتا ہے۔ پانیوں کی گہرائیوں سے اوبھ جائے تو زقند بھر کے وہ فضاؤں میں محو سفر ہو جاتا ہے۔ اور اگر ارضی فضاؤں کی تنگنائے میں اس کا دل گھبرانے لگے، کیونکہ تخیّل کا دل بھی ہوتا ہے، تو وہ خلاؤں کی اور چل پڑتا ہے۔ اور اگر کائنات کے انبار وجود میں اسے اپنی منزل مراد ہاتھ نہ آئے تو وہ اچک کر زمان و مکان کی فصیلوں پر بیٹھ کے ماورا پر ٹکٹکی جما لیتا ہے۔ اور اگر عالم ماورا میں راستے اور سفر کا نقشہ، جو فزکس کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس کے پاس ہو، اور ان فصیلوں پر بیٹھے بیٹھے اس کے دل میں ہجر حق کی ہوک اٹھے، تو وہ ماورا میں سفرکا آغاز کرتا ہے اور حضورِ حق میں سجدہ ریز ہو کے منزل مراد پر فائز المرام ہو جاتا ہے۔
یہاں تک آتے آتے سائنسدان کا جلال دیدنی، اور تخیّل کی تعریف ضروری ہے۔ تخیل ایک ایسا نفسی ملکہ ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات اور تعینات سے نہ صرف آزاد ہے، بلکہ عقل، نفس اور حس میں ان تحدیدات اور تعینات کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صورتوں کے عالم کی خوگر عقل، نفس اور حس خود ’’صورت‘‘ بن جاتے ہیں، لیکن تخیل پیکر محسوس کے اس جبر سے اوپر اٹھنے کی استعداد ہے۔ عقل کی تعریف تو معلوم و معروف ہے جو صبح و شام تنورِ علم کا بھاڑ جھونکتی ہے، اور ہمارے رزق و ہستی کی اب واحد ضامن ہے۔ عقل میکانکی اور تجریدی ہے، تخیل نامیاتی اور حضوری ہے۔ عقل شعوری ہے اور تخیل نفسی۔ عقل ‘‘ہونے نہ ہونے’’ کے سوال ہی میں کھپ جاتی ہے، حس، صورت کے پھاٹک پر سر پھوڑتی رہتی ہے، اور نفس کو مافات کے ماتم سے فرصت نہیں۔ عقل، نفس اور حس کی رستگاری تخیل ہے۔
تخیل کا ملکہ تین غیرمعمولی طریقوں پر کام کرتا ہے: تخلیقی، حضوری، اعتباری۔ اگر تخیل، حس میں کارفرما ہو جائے تو یہ صورت کو نامیاتی پن دے کر اس کی fixity کو توڑ دیتا ہے، اور ایسی نئی صورتیں جنم لیتی ہیں جو عالم شہود میں فطری طور پر نہیں پائی جاتیں۔ یہ پہلو فنون لطیفہ کی بنیاد ہے، اور حس میں یہ تخلیقی جہت تخیل سے داخل ہوتی ہے۔ تخیل کی حس میں کارفرمائی سے حس اپنی خلقی تحدید سے اوپر اٹھ جاتی ہے اور محض صورتوں کی قیدی نہیں رہتی۔ تخیل آنکھ کے ساتھ باقی حواس کو بھی ان کی تحدیدات سے اٹھانے کی صلاحیت ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ تخیل کی حس میں کارفرمائی کے دو پہلو ہیں۔ اگر صورت غالب اور معنی متضمن ہو تو فنون لطیفہ کا اصول مختلف ہو گا، اور اگر معنی غالب اور صورت متضمن ہو تو فنون لطیفہ کا اصول اور اظہار بدل جائے گا۔
تخیل کا دوسرا پہلو حضوری ہے جو نفس سے متعلق ہے۔ نفس انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ مافات کا ہے جو اس کی صلاحیتِ تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر تخیل نفس میں کارفرما ہو جائے تو یہ مافات کو حاضر رکھتا ہے۔ یہ تخیل کا ایک معمولی پہلو ہے جو انسانی زندگی میں تلافء مافات کی بنیاد ہے۔ اس نفسیاتی میکانزم کی عدم موجودگی میں انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اس کی اصل یہ ہے کہ تخیل غیب کو حاضر رکھنے کی صلاحیت ہے، اور تلافیء مافات اس کا ایک اظہار ہے۔ تخیل کی یہ صلاحیت نفسیاتی اور روحانی دونوں طرح کام کر سکتی ہے۔ شہود میں یہ نفسیاتی ہے اور عالم غیب کے حوالے سے یہ روحانی ہے، اور یہ تخیل کی حضوری صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ تصوف کے اشغال اور مجاہدے تخیل کی اسی صلاحیت کو مرکز بناتے ہیں، اور تزکیۂ نفس سے مراد تخیل کا شہودی نسبتوں سے تزکیہ ہے، اور غیب کے ہمہ وقت حضور کے وسائل کا اکتساب ہے۔
عقل حاضر و موجود کے علم کا ملِکہ، اور شہود کا خچر ہے۔ بود و نبود اور وجود و عدم کے کھوج میں صورتوں کے نشانات بہت جلد ناپید ہو جاتے ہیں، اور راستہ باقی رہتا ہے، اور عقل شہود کے سرحدی پھاٹک پر سرگرداں اور سرگراں رک جاتی ہے۔ اگر عقل کو غیب کے معتبر نشانات فراہم ہوں، اور اس میں تخیل کارفرما ہو جائے، تو اس کے علم کے خواب پورے ہو جاتے ہیں۔ یہ تخیل کی اعتباری جہت ہے۔ عرفان عقل میں تخیل کی اعتباری کارفرمائی ہی سے پیدا ہوتا ہے جبکہ عقل کو غیب کے ‘‘معتبر نشانات’’ بھی فراہم ہوں۔
تخیل، حس اور نفس کو نئی شرائط ہستی سے متعارف کراتا ہے، اور عقل کو نئی شرائطِ علم سے۔ تخیل کا ملکہ عقل، حس اور نفس کو ایک قابل شناخت نامیاتی وحدت میں پروئے رکھتا ہے۔ انفسِ انسانی میں تین بڑے پودے ہیں، عقل، نفس اور حس۔ تخیل ان کا پانی ہے۔ اس سرچشمے کو زندہ اور مزکی رکھنا ہی انسان رہنے کی جدوجہد ہے۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کی آلودگی آفاقی ماحولیات میں ہے، تو جدید علم کی آلودگی انفسی ماحولیات میں ہے اور اس کے اثر سے انفس کے فطری سرچشمے آلودہ ہو گئے ہیں۔ جدید انسان بصری صورت اور ذہنی کانسیپٹ کی دو تہوں میں مکمل طور پر پیک ہو گیا ہے، اور یہ پیکنگ جدید انسان کی کل سطح وجود ہے۔ تخیل انسان کے انفس کو ورکشاپ بننے سے اور آفاق کو صنعتی خرابات بننے میں مزاحم رہتا ہے۔
قول: احمد جاوید /تشریح : محمد دین جوہر
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر