وجود

... loading ...

وجود
وجود

بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو سنگین مسائل کاسامناہوگا

جمعه 24 فروری 2017 بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو سنگین مسائل کاسامناہوگا

برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے شروع ہونے والی مہم کے دوران یہ تاویل پیش کی جارہی تھی کہ یورپی ممالک کے تارکین کی بے تحاشہ آمد کے سبب برطانیہ کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات رونماہورہے ہیں اور برطانوی شہریوں کیلیے روزگار کے مواقع میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں بات کرنے والے اس طرح شور مچارہے تھے جیسے کہ کشتی نوح میں عین دورانِ سفر آگ لگ گئی ہو۔
اس وقت برطانیہ میں یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے کم وبیش 20 لاکھ محنت کش موجود ہیں۔ جن میں ہنر مند ، نیم ہنر مند ،بے ہنر، تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ و ناخواندہ سب ہی شامل ہیں۔جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف 10سال قبل ان کی تعداد آج کے مقابلے میں کم وبیش دگنی تھی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق یورپی یونین سے برطانیہ آنے والوں کی مجموعی تعداد سالانہ کم وبیش 2لاکھ ہے؟کیا یہ درست نہیں ہے کہ لاکھوں افراد نے صرف اس لیے ووٹ دیے کہ یورپی ممالک سے برطانیہ آنے والے تارکین کی تعداد میں کمی کی جائے؟لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جب یہ سیلاب رک جائے گا، اور سیلابی پانی خشک ہونا شروع ہوگا تو ایک وقت ایسا آئے گا جب زمین کے سوتے خشک ہوچکے ہوں گے اور ہمیں پینے کیلیے ایک گلاس پانی بھی دستیاب نہیں ہوسکے گا؟شاید ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔
2015ء میں ہماری افرادی قوت میں برطانیہ میں پیداہونے والی افرادی قوت کی تعداد 26.5 ملین بتائی جاتی ہے جو کہ اس وقت تک کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ تھی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ برطانوی کمپنیوں اور صنعتوں میں اگر افرادی قوت کی طلب میں اضافہ ہوتاہے توہمیں یہ طلب پوری کرنے کیلئے تارکین کی ضرورت ہوگی۔اب ہمیں اپنے معمر رشتہ داروں ،ماں ،باپ ، دادا، دادی،نانا ،نانی اور دیگر افراد کی دیکھ بھال کرنے کیلیے درکار اضافی ورکرز کی طلب پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ اضافی ورکرز جو کیئر ورکرز کہلاتے ہیں ،کہاں سے آئیں گے ۔کیا برطانیہ میں پیداہونے والے کیئر ورکرز اتنی تعداد میں دستیاب ہیں جو ہماری موجودہ ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے اورجب ہمارے پاس اپنی موجودہ ضرورت کی تکمیل کیلئے اپنے کیئر ورکرز موجود نہیں ہیں تو ہماری مستقبل کی ضروریات جو موجودہ ضرورت کے مقابلے میںزیادہ ہوں گی کیونکہ انسان کی اوسط عمرمیں اضافے کے ساتھ ہی ملک میں معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا اوران کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ہمیں کیئر ورکرز کی ضرورت بھی زیادہ ہوگی۔ان اضافی کیئر ورکرز کی طلب بھی ہمیں تارکین ہی کے ذریعے پوری کرنا ہوگی۔
اب ان ڈاکٹروں اورنرسوں کے بارے میں سوچیے جن کو ہمارے مریضوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے وارڈز میں سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی،ان کے واپس چلے جانے یا نئے ڈاکٹروں کے برطانیہ نہ آنے کی صورت میںان کی بڑھتی ہوئی طلب کیسے پوری ہوگی،کیاہم برطانیہ میں پیداہونے والے بچوں کو اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹر بناسکتے ہیں جو ہماری موجودہ اور مستقبل کی ضروریات پوری کرسکیں، ظاہر ہے کہ بظاہر اس کاکوئی امکان نظر نہیں آتااور ہمیں اپنی ڈاکٹروں اور نرسوں اور دیگر نیم طبی عملے کی ضروریات کی تکمیل کیلیے بھی تارکین کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور رہنا پڑے گا۔
اب آئیے سافٹ ویئر ڈیولپرز کی جانب ،ریسرچ میں مصروف سائنسدانوں کی جانب،انجینئروں کی جانب، دیگر شعبوں کے ہنر مندوں کی جانب اور سب سے بڑھ کر تعمیراتی کام انجام دینے والے ہنر مند اور بے ہنر افرادی قوت کی جانب، کیا برطانیہ میں پیداہونے والے ان تمام شعبوں کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔کیا ہم قومی معیشت اور پیداواری عمل کو جاری رکھنے کیلیے ان کی خدمات کو نظر انداز کرسکتے ہیں، یاکیاہم ان کی خدمات کے بغیر پیداواری عمل کو، معیشت کی بحالی اور ترقی کے عمل کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ظاہر کہ اس کا جواب مثبت نہیں ملے گا بلکہ اس کاجواب نفی میں ہی آئے گا۔ہم اپنی موجودہ ورک فورس کو ملک میں روک کر اپنی موجودہ ضرورت توکسی طرح پوری کرلیں گے لیکن اس طرح نہ تو ہماری موجودہ ضروریات پوری ہوسکیں گی اور نہ ہی ہماری مستقبل کی ضروریات پوری ہوسکیں گی۔ ہمیں اس کے لیے تارکین کی ضرورت ہوگی، ہمیں اس بات کی ضرورت ہوگی کہ ہم اپنی افرادی قوت کی ضرورت پوری کرنے کیلیے تارکین کو برطانیہ آنے کی ترغیب دیں۔ہمیں اپنی افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کیلیے بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے پرمجبور ہونا پڑے گالیکن اگر بیرون ملک سے افرادی قوت برطانیہ آنے پر تیار ہی نہ ہوتو پھر ہماری معیشت کس کروٹ بیٹھے گی؟
قومی شماریات دفترکی جانب سے اسی ہفتے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ کی افرادی قوت میں اس وقت یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم وبیش 2.3 ملین یعنی کم وبیش23لاکھ ہے۔جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ اب یورپی یونین سے تارکین کی آمد میں کمی ہورہی ہے۔یورپی یونین سے آنے والے تارکین کی تعداد میںہونے والے کمی کے اس رجحان کے ساتھ ہی آجرین نے افرادی قوت کی کمی کی شکایات کرنا شروع کردی ہیں۔
کنگز کالج لندن کے تارکین سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر جوناتھن پورٹس نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے برسوں کے دوران یورپی یونین سے آنے والے تارکین کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہونے کی توقع ہے۔جبکہ برطانوی سیاستدانوں کاخیال ہے کہ بریگزٹ کے بعد یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کی حالت پانی سے بھرے ہوئے اس برتن کی سی ہوگی جو کبھی بالکل الٹ جائے گایعنی خالی ہوجائے گا اور کبھی پورا بھر جائے گا۔ یعنی اس میں کمی بیشی ہوتی رہے گی۔ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی افرادی قوت دوسرے ملکوں سے برطانیہ لاسکیں گے اور اس طرح امیگریشن پر پورا کنٹرول رکھ سکیں گے۔ان کا یہ خیال اپنی جگہ درست ہوسکتاہے لیکن اس وقت کیا ہوگا جب پانی کا یہ برتن بالکل ہی خالی ہوجائے اور بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے،اور پیداواری عمل جاری رکھنے کیلیے افرادی قوت کی سپلائی کامسئلہ پیدا ہوجائے۔
گزشتہ برسوں کے دوران تارکین کے حوالے سے برطانیہ کاماحول برطانوی حکومت کا طرز عمل اورپالیسیاں کسی طور بھی حوصلہ افزا نہیں رہی ہیں۔بریگزٹ کے سوال پر ریفرنڈم کے دوران تو یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے تارکین پر حملوں کے واقعات بھی دیکھنے اور سننے میں آئے،برطانیہ کو اپنا وطن بنانے والے یورپی تارکین کے مستقبل کے حقوق کے مسئلے پر بھی تارکین میں تشویش پیدا ہوتی رہی اور اب بھی موجود ہے۔اس حوالے سے برطانیہ کے طاقتور پرنٹ میڈیاکالہجہ بھی بہت ہی تلخ رہاہے۔ہمارے سینئر سیاستدان برطانوی عوام کے معیار زندگی پر تارکین کے اثرات کے حوالے سے سائنسی حقائق کو غلط طورپر پیش کرتے رہے ہیں۔جبکہ بعض لوگ حقائق کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ہیں اور دائیں بازو کی جانب سے ہدف بننے کے خوف سے اس معاملے پر بات کرنے ہی سے گریز کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر یورپی ممالک کے کسی ہنر مند یا بے ہنر ورکر کو برطانیہ یا کسی دوسرے ملک میں ملازمت کا آپشن ملے تو وہ برطانیہ کے غیر دوستانہ رویے اور ماحول کی وجہ سے دوسرے ملک کو برطانیہ پر ترجیح دے گا۔ایسی صورت میں آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جب آپ کو ضرورت پڑے گی آپ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق افراد ی قوت دوسرے ملکوں سے لے آئیں گے اورلوگ آپ کی پکار پر دوڑے چلے آئیں گے۔یہ وہ حقائق ہیں بریگزٹ پرپوری طرح عمل سے قبل ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ،کیونکہ کارآمد افرادی قوت کونکالنا، پھینکنا توآسان ہے لیکن ان کا دوبارہ حصول بہت مشکل بلکہ ناممکن بھی ثابت ہوسکتاہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


حوالگی محمد اقبال دیوان - جمعه 17 مارچ 2017

انگریزی زبان کے لفظ Rendition کے دنیا ئے شاعری و موسیقی میں تو معنی بہت دلنشین ہوتے ہیں یعنی صوتی ادائیگی مگر قانون اپنے بیانیے میں چونکہ کتابوں میں تو بالکل ہی اندھا اور نو نان سینس ہوتا ہے لہذا وہاں اس کے معنی ایک تحویل سے دوسری تحویل میں کسی فرد یا جائداد کی حوالگی کے ٹہرتے ہی...

حوالگی

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر