وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر میں جاری نسل کشی

جمعرات 23 فروری 2017 کشمیر میں جاری نسل کشی

اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کر دیا گیا ۔اس کے جنگلات میں نایاب خوشبوداردرختوں کوکاٹ کر ہندوستان کی تمام صاحب حشمت گھروں کو معطر کیا گیا ۔اس کے پانیوں سے ڈیم تعمیر کر کے ہندوستان کے لاکھوں گھروں کو روشن کیا گیا مگر خود اس کا گھر ہمیشہ تاریک رہا ۔اس کا نایاب نیلم دنیا بھر میں نیلام ہوا مگر بھکاری سمجھ کر چند ٹکے اور سکے ہی اس کے کٹوری میںپھینکے گئے ۔سفید’’ شیروانی میں ملبوس اسمگلروں ‘‘کے ذریعے اس کے جنگلات کی ناپید جڑی بوٹیوں کو تلا ش و تحقیق کے نام پر چوس کرجب مغرب میں دادو تحسین اور کروڑوں ڈالر حاصل کئے گئے تو اس کے مزدور کی مزدری بھی بڑے سیٹھ صاحب کھا گئے اور تو اور ایک سابق وزیر اعلیٰ نے چند کروڑ روپیوں کے خاطر اس کے دریاؤں اور نہروں میں کھدائی کا ٹھیکا بھی دلی کے ایک مہاجن کو دیکر چار لاکھ مزدوروں کے پیٹ پر لات مارنے کی شرمناک کوشش کی۔ خدا بھلا کرے جموں کی ہائی کورٹ جسٹس اور وہاں کی ہندو برادری کا جنہوں نے سازش کا بروقت توڑ کر کے اس پر پابندی لگانے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ایک کشمیری مسلمان جج نے مزدوروں کوآج ،کل یا پرسوں کے ’’لفظوں کے ہیرپھیر ‘‘ میں تب تک پریشان رکھا جب تک جموں کورٹ کے حکم نامے کی کاپی جناب کے میز پر نہیں پہنچائی گئی ۔
کشمیر کے نباتات ، جمادات و جمالات پر ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے اور خود کشمیری باشندگان کو بھکاریوں کی راہ پر ’’غیروں اور اپنوں‘‘نے ڈال دیا ہے حتیٰ کہ اس کی عزت و آبرو اور جان و مال تک کو خطے کی بڑی طاقتوں نے اپنے لیے حلال کر رکھا ہے ۔یہ سب ہم سہہ رہے اور شاید مستقبل میں بھی سہنے کے لیے تیار ہو جاتے مگر جس ’’مسئلہ‘‘نے یہاں کے دانشمندوں اور دانشوروں کو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے وہ ہے ہماری ’’جاری نسل کشی‘‘۔جو انتہائی غیر محسوس طریقے پر ہمیں اندر ہی اندر ختم اور بربادکرتی جا رہی ہے ۔تین ایٹمی قوتوں میں گھری ایک کمزور اور مظلوم قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ان کا قصور کیا ہے ؟ان کے بچوں سے لیکر اسی سال تک کے بوڑھوں کو کس جرم کی سزا میں قتل کیا جارہا ہے۔سکھوں کے قبضے سے نجات کے بعدتقسیم برصغیر کے وقت1947ء کی ہری سنگھ کے قبضے والی ریاست میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں جس کا اثر اب تک پورے جموں خطے میں صاف نظر آتا ہے کہ ضلع جموں ،ادھم پوراورکٹھوعہ میں اکثریتی فرقہ اقلیت میں تبدیل ہوگیا اوراس عددی تبدیلی نے خطے کے سیاسی اور مذہبی شناخت تک کو متاثر کرکے خطے کے خدوخال ہی متاثر کر دیئے۔پھر وقفے وقفے سے غیر محسوس انداز میں جموں میں غیر ریاستی باشندوں کی رہائش سے لیکر اب مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے لیے ’’ ڈوموسائلِ اسناد‘‘تک کے شرمناک ظالمانہ مراحل نے دلی کے ساتھ ساتھ کشمیری ہندنواز حکمران طبقے تک سب کو ننگا کردیا ہے اور آزادی پسند قیادت کے اس دعویٰ کو تقویت فراہم کی ہے کہ دلی اور ان کے کشمیری ہمنوا ریاست کے سیاسی، مذہبی اور جغرافیائی شناخت کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل چاہتے ہیں ۔
1987ء میںجمہوریت اور سیاست سے مایوس سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے ’’عسکری جدوجہد‘‘کا فیصلہ کر کے آزاد کشمیر کا رخ کیا ۔وہاں سے ہتھیاروں کے علاوہ ’’تربیت یافتہ نوجوان مجاہدین‘‘کی بڑی تعداد کشمیر پہنچنی شروع ہو گئی ۔کشمیر عملی طور پر میدان جنگ بن گیا ۔فوج پر حملوں میں ان کا مالی اور جانی نقصان ہونے لگا اور اس کے ردعمل میں جو قیامت کشمیریوں پر ڈھائی گئی وہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کچھ اس طرح ہے ۔
گمشدہ افرادتقریباََ آٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہیں،مقتولین کی تعداد:94610،حراستی ہلاکتیں 7078، بیوائیں: 22831، یتامیٰ: 107603، گرفتاری کے بعد تشدد کے شکار: 139612، عصمت ریزی کی شکار خواتین: 10828، تعمیرات جو مکمل طور تباہ ہوئیں: 107740۔ نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں مگر یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو انٹرنیٹ پر صرف ’’میڈیا رپورٹوں‘‘ سے حاصل کر کے جمع کی گئی ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے مالی جانی نقصانات کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں البتہ مظفر آباد کی ایک جواں سال قلمکار حفصہ مسعودی نے ذاتی کوششوں سے 1990ء سے لیکر 2002ء تک شہداء اور مجروحین کی تعداد جمع کی ہیں جن کے مطابق شہداء کی تعداد1667اور مجروحین کی تعداد 5829 ہیں۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ آر پار کشمیر میں شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ کم ہے البتہ اگر لاپتہ اور گمنام قبروں میں دفن افراد کو اس میںشامل کیا جائے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔
اعدادو شمار کے بعد آپ خطے میں 1947ء سے اب تک کی ہلاکتوں کا ایک پہلو اور بھی دیکھئے کہ مقتولین کی نوے فیصد سے بھی زیادہ تعداد بیس سے لیکر چالیس کی عمر والے نوجوانوں کی ہے گویا اس کا اثر ہم پر صرف گزشتہ ستر برس میں اس قدر برا پڑا ہے کہ ہم نے پانچ نہیں کم سے کم پندرہ لاکھ انسانوں کو کھو دیا ہے جو ہماری قومی آبادی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔ دلی اور پاکستان کے شدید سیاسی اختلافات میں کشمیری قوم بری طرح پھنس چکی ہے یہ ان سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنابھی چاہیں تو بھی الگ نہیں کر سکتے ہیں ۔دو قومی نظریہ کے پس منظر میں لگے زخم ابھی تک ہرے بھرے ہیں اور ان پر مرہم رکھنے کی تمام تر کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ۔جب بھی سیاسی اختلافات کے پس منظر میں دو ممالک کے بیچ ماحول خراب ہو جاتا ہے اور بندوقوں کے دھانے کھلتے ہیں تو اس کا شکار بھی دونوں جانب رہنے والے کشمیری ہی بنتے ہیں ۔ہر سیز فائر کے بعد جب بھی سرحدوں پر جنگ چھڑتی ہے تو کشمیری بے موت مارے جاتے ہیں ۔ایک طرف وادی کشمیر میں موت کا رقص جاری ہے تو وہی دوسری جانب سرحدوں پر رہنے والے جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے انسان خوف و دہشت کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کئے جا چکے ہیں ۔
عسکریت کے آغاز کے ساتھ ہی جہاں دلی والوں کو کشمیریوں کو مارنے کا کھلا لائسنس فراہم ہو چکا ہے، وہی ’’نامعلوم بندوق‘‘نے ہمارے ہزاروں چراغ بھی گل کر دئیے ۔ایک طرف سرحدی جھڑپوں اورگولہ باری میں ہم ہی مارے جاتے ہیں ،وہیں دوسری طرف وادی کشمیر سے لیکر کشتواڑ اور پونچھ، راجوری تک ہم ہی نشانے پر ہیں ،جہاں ہم غیروں کے ہاتھوں نہیں مارے جاتے ، وہاں ہم مختلف ناموں پرخود ایک دوسرے کو ہی مارتے ہیں ۔دلی کی بے رحمی اور قساوت قلبی عیاں ہیں ۔ان کے دلوں میں ہمارے لیے نرمی و شفقت موجود نہیںہے ۔’’آنتک واد اور دہشت گردی‘‘ کے نام پر ہمیں جانوروں کی طرح مارنا ان کے لیے باعث فخر بن چکا ہے حالانکہ اب ہم میں اور جنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے۔ جاری نسل کشی نے ہماری ماؤں ،بہنوں اور بزرگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔کشمیری اس ظلم میں یک طرفہ پسے جا رہے ہیں ۔جرم ان کا صرف یہ ہے کہ یہ اپنا وہ حق مانگتے ہیں جو دنیا کے تمام مذاہب و ملل اور نظریات میں مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے ۔بد قسمتی سے جہاں کشمیری علاقائی طاقتوں کی قہر سامانیوں سے مظلوم ہے وہیں علاقائی طاقتیں اپنے اختلافات اور دشمنیوں کا بدلہ بھی انہیں تختہ مشق بنا کر لیتے ہیں ۔
رہے دلی والے، یہ خدا جانے کس مٹی کے بنے ہیں جو کشمیر کو ایک سانس میں ’’اٹوٹ انگ‘‘بھی قرار دیتے ہیں اور دوسرے ہی سانس میں ان کے ساتھ ’’مفتوحین‘‘جیسا سلوک بھی کرتے ہیں ۔جنگ بندی کے لیے دلی والے تیار نہیں ہیں کہ کہیں دلی کی ناک نہ کٹ جائے۔رہے کشمیری۔۔۔ انھوں نے جب جنگ بندی کی تو دلی نے اس کو آگے بڑھانے کے لیے موافق ماحول فراہم نہیں کیا ۔جنگ گزشتہ اٹھائیس برس سے جاری ہے اور اس جنگ میں یک طرفہ طورپر کشمیری ہی ایندھن بنتے جا رہے ہیں ۔بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے اس لیے دلچسپی نہیں ہے کہ کشمیر کوئی عراق، کویت ،قطر،دبئی یا مشرقی تیمور نہیں ہے ۔جہاں انہیں پنجے گاڑھتے ہی تیل کوڑیوں کے دام میں مل جاتالہٰذا انھوں نے کشمیر کو سالانہ ،ششماہی،سماہی ،پندرہ روزہ یا پاکستان کی طرح ہفتہ وار ’’بریفنگ یا بیانات ‘‘تک محدود کردیا ہے ۔رہا عالم اسلام وہ کہیں ہے ہی نہیں ،ان کو امریکا اور برطانیہ نے ’’رفاعی ریاستوں ‘‘میں تبدیل کر کے رکھا ہے ۔ان کی ساری تگ و دو مغربی ممالک کی خوشنودی کے علاوہ بعض تجارتی اوررفاعی کاموں سے آ گے نہیں بڑھتی ہے لہذا ان سے کسی مدد و نصرت یا مداخلت کی امید رکھنا کار عبث ہے۔گھوم پھر کے معاملہ پھر کشمیر میں آکرہی اٹک جاتا ہے ۔
کشمیری لیڈر شپ اور عوام منقسم ہے ۔جموں اورلداخ مکمل طور پرہم سے الگ ہیں، سوائے جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں کے ۔آزاد کشمیر سے لیکر وادی کشمیر تک مسلمان مختلف طبقوں اور نظریوں میں منقسم ہیں ۔ہم ایک آواز میں ایک لائحہ عمل کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر کا کیس کبھی خالص مذہبی ، خالص سیاسی اور خالص انسانی نظر آتا ہے مگر کبھی کبھار نظریاتی تصادموں کا میدان بھی ۔کشمیر میں جاری نسل کشی کا اگر چہ ہر شخص کو بخوبی ادراک ہے مگراس کے لیے یک جاں ہو کر اس کے روکنے پر فریقین کو مجبور کرنے کے لیے جس عزم و ہمت کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے ۔ کشمیری اگر اسی طرح مرتے اور کٹتے رہے تو اس کا اثر ہمارے اوپر مستقبل بعید نہیں قریب میں پڑے گا ۔اگر بالفرض پاکستان اور ہندوستان اسے روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اٹھائیس برس میں وہ ناکام رہے تو کیا کشمیری اس ’’اسٹیٹس کو‘‘کو مزید برداشت کر پائیں گے ۔اگر ہمارا نسلی صفایا اسی طرح جاری رہا اور ہمارے ادھ کھلے پھول اسی طرح کچل دئیے گئے تو کیاہم آزادی انسانوں کے برعکس نباتا ت و جمادات کے لیے مانگ رہے ہیں ۔نئی دہلی کے وزارت عظمیٰ کے دفتر میں براجمان ’’سنگھی برادران‘‘ کی ہمدردی اور انسانیت نوازی ہم نے کھل کر 2016ء میں دیکھی ہے کہ کشمیریوں کے لیے چاند لانے کی باتیں کرنے والے ’’سنگدل باتونی‘‘سیاستدان ’’پیلٹ اور پاواگنوں‘‘پر پابندی کے وعدے کے باوجود بھی عمل نہیں کر سکے۔
ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ دلی والے ہمیں کسی بھی طور کوئی نئی رعایت دیں گے۔برسراقتدار طبقے کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ گجرات اور مظفر نگر کی سڑکوںاور گلی کوچوں میں ان کے ناموں کی دھوم ہے لہذاوہ کشمیری مسلمان نسل کو بچانے کے لیے کوئی اقدام کیوں کریں گے؟ ایک صورت باقی رہتی ہے کہ خود کشمیر کی مخلص آزادی پسند قیادت اس’’نسل کشی‘‘کو روکنے کے لیے کوئی نیا لائحہ عمل سامنے لائیں۔ جس کو دیکھ کر دلی والے بے بس ہو کر ماننے پر مجبور ہو جائیں ۔دلی والوں نے فی الحال سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ کشمیری عسکری اور سیاسی قیادت کا اسٹینڈ بھی متوازن اور واضح ہے اس لیے کہ جن نقاط پر 2010ء میں پارلیمانی کمیٹی نے سفارشات پیش کی تھیں ان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔2016ء میں قیادت نے جب ہندوستان کو 2010ء کے وعدوں کے ایفا کی کہانی یاد دلائی تو دلی والے سٹپٹا گئے اور انھیں یاد آیا کہ ہم ہی باربار وعدہ خلافی کے مرتکب ہو تے ہیں ۔پنجاب اور یوپی کے انتخابات کے بعد 2017ء میں سیاسی پیش رفت کے امکانات روشن ہیں مگر ان کے ماحول بنانے کے لیے قیادت کو آج ہی سے کام شروع کرنا ہوگا ۔دلی کے لیے کشمیر میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایک مبہم اور مجمل قسم کا دباؤ پیدا ہوچکا ہے اس سے قیادت کو بھر پور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ایک ہماری نسل کشی کی روک تھام ہو، دوم مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ہو ۔
٭٭


متعلقہ خبریں


شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا! اشتیاق احمد خان - هفته 08 جولائی 2017

کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...

شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا!

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی وجود - هفته 08 جولائی 2017

اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان وجود - جمعه 30 جون 2017

امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان

کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟ الطاف ندوی کشمیری - جمعرات 16 مارچ 2017

پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...

کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے رضوان رضی - جمعه 03 فروری 2017

جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش الطاف ندوی کشمیری - بدھ 18 جنوری 2017

ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...

کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک وجود - بدھ 30 نومبر 2016

فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے شیخ امین - بدھ 23 نومبر 2016

میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی الطاف ندوی کشمیری - هفته 19 نومبر 2016

8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی

مودی سے ٹرمپ تک شیخ امین - اتوار 13 نومبر 2016

28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...

مودی سے ٹرمپ تک

وطن ہمارا آدھا کشمیر شیخ امین - منگل 01 نومبر 2016

کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...

وطن ہمارا آدھا کشمیر

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام الطاف ندوی کشمیری - منگل 25 اکتوبر 2016

امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر