وجود

... loading ...

وجود
وجود

’اوہوہوہوہوہوہو‘

بدھ 08 فروری 2017 ’اوہوہوہوہوہوہو‘

حکمران نواز لیگ کے چند مخصوص وزراء نے گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی میدان میں منہ سے آگ نکالنے کا مظاہرہ شروع کررکھا ہے۔ ماضی قریب تک ان کی ملائم زبانوں کے برعکس اب لہجے کی تلخی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس وقت ان میں سے ہر ایک اپنے تئیں اپنے محبوب قائد میاں محمد نواز شریف کی زبان سے زبان اور قدم سے ملانے کی تگ و دو میں ہے۔ اگرچہ ن لیگ کی واضح اکثریت کی زبان میں وہی پہلے والی چاشنی اور ہونٹوں پر وہی پرانی والی مسکراہٹ برقرار ہے ،لیکن میڈیا کے کیمرے انہی کو دکھا رہے ہیں جو سیاسی میدان میں منہ سے آگ برسا رہے ہیں۔
ان میں سے بعض کرداروں کو تومن کی مراد بھی مل رہی ہے ، جیسے سقوطِ ڈھاکا کے ایک اہم کردار، جنرل غلام عمر ،جن کا حمود الرحمن کمیشن میں ’سنہری حروف‘ میں ذکر آیا تھا، ان کے صاحبزادے جناب محمد زبیر عمر سندھ کی گورنری سے سرفراز ہوچکے ہیں۔ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب، کے مصداق، میڈیا کو ان کا جو سرکاری نام جاری کیا گیا ہے وہ ’’محمد زبیر‘‘ ہے اور ابا جی کا حوالہ غائب ہے۔ حالانکہ اگر وہ ابا جی کا حوالہ برقرار کھتے تو وزارتِ عظمیٰ کے بھی امیدوار ہو سکتے تھے، کیوں کہ ان کی پارٹی کی تو یہی روایت ہے۔
اسی طرح باقی بہت سے رہنما بھی ، جو اس محاذ پر گولہ باری میں مصروف ہیں، اس شجر سے پیوستہ رہ کر امیدِ بہار رکھ رہے ہیں کہ ان کا نمبر بھی عنقریب آ ہی جائے گا ۔ان میں سے بعض نے تو پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جماعت اسلامی کے لتے لینے شروع کر دئیے ہیں۔ سیاست کے عمومی مزاج میں اکثریتی حکومتی پارٹی (اور اتنی اکثریتی پارٹی جو اس وقت ن لیگ ہے) ان الفاظ اور ایسی زبان سے پرہیز کیا کرتی ہے جو اس وقت مسلم لیگ (نواز ) کے کچھ وزرا اور زیادہ تر رہنما استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اسلام آباد پر پہلی ’دو آتشہ‘ یلغار کے وقت ن لیگی حضرات پر اس سے کئی گنا زیادہ گالم گلوچ اور تبریٰ کیا گیا تھا، لیکن اگر کسی کو یاد ہو تواس وقت ان وزرا کی زبانیں شہد سے لتھڑی تھیں، اور خواجہ سعد رفیق جیسے لیگی حضرات (جو آج کل آگ نکالنے والی بریگیڈ کی قیادت فرما رہے ہیں) ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ہی غائب نہیں ہوتی تھی۔ طاہر القادری سے اپنی روحانی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے وہی اُن کو منانے جانے والے حضرات میں پیش پیش ہوتے تھے۔لیکن اب کیا ہوگیا ہے؟ ایسی کون سی جوہری تبدیلی آ گئی ہے کہ ان زبانوں میں بھی زہر گھل گیا ہے؟ اس موقع پر اس کی ایک وجہ تو وہ رویہ ہے جو اسی اور نوے کی دہائی کے محترم منو بھائی کے معروف پی ٹی وی ڈرامے ’’سونا چاندی ‘‘ کے ایک کردار سے مستعار لیا گیا ہے۔ یہ کردار ہر (نئی) چیز کو دیکھ کر ’اوہوہوہوہوہو‘ کیا کرتا تھا اور ساتھی کرداروں کو وقت بہ وقت ’تراہ‘ نکال کر ڈرا دیا کرتا تھا حالاں کہ حقیقت میں بات کچھ بھی نہیں ہوتی تھی۔ یہ کردار تحریکِ پاکستان کے ایک معروف لیگی کارکن جناب جلیل اختر مرحوم کے صاحبزادے جناب غیور اختر مرحوم نے نبھایا تھا۔ آج کل تحریکِ انصاف کی تمام چھوٹی بڑی قیادت اور ن لیگ کا مخالف میڈیا بس ایک ہی کام کرنے میں مصروف ہے یعنی کہ ہر بات پر بس ’اوہوہوہوہوہوہو‘۔ اس پر مستزاد وہ میڈیا ہے جوخود کو راولپنڈی کا نمائندہ ظاہر کرتا اور غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتا رہتا ہے، وہ اس ’اوہوہوہوہوہوہو‘میں اپنی طرف مزید ’اوہوہوہوہوہوہو‘ ڈال کر عوام کو ’تراہ‘ نکالنے میں مصروف ہے۔ ن لیگ کی قیادت کا اب یہ خیال ہے کہ اگر عوام کا تراہ نکالنے، ان کو ڈرانے یا یرکانے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو کہیں ۲۰۱۸ میں عوام ’اوہوہوہوہوہوہو‘ کرکے ن لیگ کا تراہ ہی نہ نکال دے؟ تو لہٰذا یہ راست اقدام کا فیصلہ اضطراری نہیں بلکہ شعوری منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب تک بظاہر قانون پسندتحریکِ انصاف نے دو دفعہ انتہائی دیدہ دلیری سے سپریم کورٹ جیسی عدالت کو پریشان کر رکھا ہے۔ عدالت نے جب اس مقدمے کو اپنے زیر سایہ لیا تھا تو اُس وقت جناب سعید چوہدری سمیت بہت سے صحافی جو کئی دہائیوں سے عدالتی معاملات کی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں، اور بیشتر وکلاء سے زیادہ قانون کی شد بداور جج حضرات کا مزاج سمجھتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ عدالت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں کہ وہ ایک ’لوکل کمیشن ‘بنا دے جو پیش کیے گئے ثبوت اور حقائق کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ پیش کرے ۔ کیوں کہ حقائق کی چھان پھٹک سپریم کورٹ کا دائرہ کار نہیں۔ اور ویسے بھی اُس وقت تک عمران خان اپنے ہر بیان اور جلسے میں کمیشن کا مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے۔ لیکن جیسے ہی عدالت نے معاملہ کی سماعت شروع کی، خان صاحب نے اپنی روایت کے عین مطابق اپنے مطالبے سے ۱۸۰ ڈگری کا موڑ کاٹا اور باقاعدہ ’دھمکی‘ دے دی کہ اگر کمیشن قائم کیا گیا تو وہ اس کارروائی کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ بعض وکلاء کی رائے میں اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو اسے ایسے مواقع پر سیدھا سیدھا توہینِ عدالت کا نوٹس جاری ہوتا ، لیکن عدالت کے فاضل جج صاحبان نے اس دباو ٔکے سامنے جھکنا ضروری خیال کیا اور یہ ڈھول اپنے گلے میں ہی ڈال کر بجانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا موقع وہ تھا جب نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد عمران خان صاحب کی طرف سے کہا گیا کہ نئے چیف جسٹس اگر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ ہوئے تو وہ اس کی سماعت کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ جس کے بعد نئے چیف جسٹس ، جن کے پیشرو اس بینچ کا حصہ تھے، وہ اس کے سربراہ کے طور پر نہیں بیٹھے۔
اس سے تحریکِ انصاف نے سیاسی فائدہ یہ حاصل کیا کہ وضاحت کے لئے جج حضرات کی طرف سے پوچھے گئے ہر سوال کو اپنے معانی پہنا کر اسے میڈیا میں ’اوہوہوہوہوہوہو‘ کر کے پھونکا اور اس سے نہ صرف سیاسی مقاصد حاصل کیے بلکہ ن لیگ اور شریف خاندان کی سیاسی چھترول بھی جاری رکھی۔عدالتی معاملات اور طریقہ ہائے کار سے باخبر ہمارے حلقۂ احباب میں غالب اکثریت کی پہلے روز سے رائے ہے اور ہم ابھی تک اس بات پر قائم ہیں کہ اس مقدمے میں پیش کیے گئے ’حقائق‘ میں اتنی جان کبھی نہیں تھی کہ ملزمان کو چند لمحوں کی سزا بھی سنائی جا سکے۔ اور جہاں تک ثبوتوں کی بات ہے تو نوازشریف صاحب کے پاس موجود دستاویزی ثبوت ان کی موجودہ ‘نظام عدل‘ میں بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ باقی سارا ’اوہوہوہوہوہوہو‘ ہے وہ آپ جتنی بات مرضی کر لیں۔
ان دو واقعات کے بعد اب بھی اگر ن لیگ اس محاذ پر سرگرم نہ ہوتی تو خدشہ تھا کہ کہیں اس کا بھی ’اوہوہوہوہوہوہو‘ ہی نہ ہو جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے تو کہیں شاید یہ سفارشی پروگرام ہی نہ ہو، لیکن یہ محض قیاس آرائی ہے۔ ن لیگ جو بڑے آرام سے بیٹھی تھی کہ وہ اپنی انتخابی مہم مارچ ۲۰۱۸ کے بعد شروع کرے گی، اسے قبل از وقت اپنی انتخابی مہم شروع کرنے اور ادھورے منصوبوں کے فیتے کاٹنا پڑ گئے ہیں۔’اوہوہوہوہوہوہو‘ !!!!!!!
٭٭


متعلقہ خبریں


نواز شریف کیخلاف فیصلہ آنے پر شہباز شریف ن لیگ کے صدر مریم نواز مشیر ہونگی وجود - اتوار 23 اپریل 2017

حمزہ شہباز پنجاب میں انتخابی مہم چلائیں گی نوجوان قیادت کے ساتھ نئے چہرے مہم کا حصہ ہونگے سینئرز کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا‘ متوقع نئے چہرے سلمان شہباز راحیل منیر ہونگے لاہور (رانا خالد محمود قمر) پاکستان مسلم لیگ ن نے اپوزیشن سے نمٹنے اور آئندہ ...

نواز شریف کیخلاف فیصلہ آنے پر شہباز شریف ن لیگ کے صدر مریم نواز مشیر ہونگی

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں الیاس احمد - جمعرات 30 مارچ 2017

ملک بھر میں ایسا ماحول تیار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ عام انتخابات کی ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تبھی تو تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوگئے ہیں البتہ بلوچستان میں ابھی انتخابات کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔ نواز شریف نے ٹھٹھہ کے بع...

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر