وجود

... loading ...

وجود
وجود

جگا ڑو سیاست

پیر 16 جنوری 2017 جگا ڑو سیاست

پاکستان دنیا کے عظیم خوبصورت اور وسائل سے مالا مال ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی ملک ہے۔ اس کے قومی ترانے کی دھن دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے ۔ دنیا کا چوتھا براڈ بینڈ انٹر نیٹ سسٹم پاکستان کا ہے۔ اس کی فوج دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر بڑی شمار ہوتی ہے۔پاک فضائیہ کے مایہ ناز ہوا باز محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارت کے 5طیارے گرادیئے تھے جن میں سے چار طیارے 30سیکنڈ میں گرادیئے تھے جو عالمی ریکارڈ ہے۔ پاکستان دنیا کے 11ملکوں میں شامل ہے جن میں 21ویں صدی کے دوران سب سے بڑی معیشت بننے کی صلاحیت ہے۔ دنیا کے دوسرے نمبر پر طویل ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو اور نویں نمبر پر نانگا پربت پاکستان میں ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے اور اسلامی ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ زمین کی بھرائی والا سب سے بڑا اور دنیا میں دوسرے نمبر کا بڑا تربیلا ڈیم پاکستان میں ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن دنیا میں سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک چلا رہی ہے ۔ دنیا کا بلند ترین ریلوے اسٹیشن بھی پاکستان میں ہے۔ دنیا میں ماہر ترین ہوا باز پاک فضائیہ میں ہیں۔ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ گوادر پاکستان میں ہے ۔ سائنسدانوں اور انجینئروں کی دنیا بھر میں ساتویں بڑی کھیپ پاکستان میں ہے۔ دنیا میں تیار ہونے والی فٹبال کا نصف (50فیصد) پاکستان میں تیار ہوتی ہیں۔ چین اور پاکستان کو ملانے والی قراقرم ہائی وے دنیا میں بلند ترین پختہ سڑک شمار ہوتی ہے۔ کھیوڑہ میں نمک کی کانیں دنیا میں دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہیں۔ دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ شیندور پاکستان میں ہے جس کی بلندی 3700میٹر ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاسی اور آسمان کو چھونے والی پہاڑی رینج پاکستان میں ہے پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین شمار ہوتی ہے لڑاکا طیارہ سازی میں بھی پاکستان آگے ہے۔ پاکستان سرجیکل آلات کی برآمد میں بھی بڑا مقام رکھتا ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا 125ممالک میں پاکستان ذہین ترین افراد میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس عظیم الشان ملک اور اس کے عالیشان عوام کی’’جگاڑو سیاستدانوں‘‘ نے حالت تباہ کر رکھی ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ غربت و افلاس‘ بیروزگاری اور مہنگائی کا گراف بڑھ جاتا ہے ۔ مہنگی تعلیم اور صحت کی سہولیات نے عام آبادی کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ رشوت کرپشن اور بدعوانیوں نے ملک کا نقشہ بگاڑ رکھا ہے۔ پاکستان کے بد عنوان سیاستدانوں نے اپنا ملک لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں پیسہ جمع کر رکھا ہے۔ پاناما لیکس نے حکمرانوں کے بہت سے راز اور پراپرٹی کھول دیئے ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ سوئس بینکوں میں جمع پاکستانیوں کی رقوم واپس لانا بہت مشکل کام ہے۔ ان رقومات کا تخمینہ 200ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جاتا ہے جو پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں سے تقریباً دوگنی رقم ہے۔ پاکستان اور اس کے عوام ان قرضوں کا سود ادا کررہے ہیں اور قومی خزانہ لوٹنے والے اپنے خاندانوں کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان ’’جگاڑو سیاستدانوں‘‘ نے پاکستان کے 70برسوں میں اسے کنگال اور بے حال کردیا ہے۔ انہوں نے ملک میں ہر شے’’جگاڑ‘‘ پر ڈال دی ہے۔ کبھی کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ لطیفہ ہے کہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے کچھ جاسوس اسلامی ممالک میں بھیجے تاکہ وہاں کے حالات کو سمجھا جاسکے دو قابل جاسوس پاکستان کی طرف روانہ کیے گئے۔ وہ پی آئی اے کے جہاز پر پاکستان کا سفر کررہے تھے کہ اچانک جہاز خراب ہوگیا پائیلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کے چاروں انجن فیل ہوچکے ہیں لیکن آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔کوئی نہ کوئی جکاڑ لگا لیا جائے گا ۔ جاسوس جوں ہی پاکستان پہنچے تو دہشت گردوں نے ایئرپورٹ پر حملہ کردیا ۔ سیکورٹی کی طرف سے اعلان ہوا کہ آپ مت گھبرائیں‘ زمین پر لیٹ جائیں‘ کوئی نہ کوئی جگاڑ لگارہے ہیں۔ ایئر پورٹ سے جان بچا کر گاڑی میں ہوٹل جارہے تھے کہ انجن خراب ہوگیا۔ ڈرائیور نے کہا کہ گھبرائیں نہیں کوئی جگاڑ لگا لیا جائے گا۔ دونوں جاسوس بمشکل اپنے ہوٹل کی دسویں منزل پر پہنچے تو وہاں آگ لگ گئی ۔ فائر بریگیڈ نے اعلان کیا کہ پانی کا پریشر 8ویں منزل تک جارہا ہے لیکن آپ فکر نہ کریں‘ کوئی جگاڑ لگالیں گے۔ دونوں امریکی جاسوس گھبرا کر دوسرے ہی دن واپس اپنے ملک چلے گئے اور صدر ٹرمپ کو رپورٹ دی کہ پورا پاکستان جگاڑ پر چل رہا ہے۔ اگر جگاڑ پر ہمارا قبضہ ہو جائے تو پورا پاکستان قبضہ میں آسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم کو فون کیا کہ جگاڑ کا کتنا مانگتا ہے۔ حکومت نے جواب دیا کہ ہم آپ کو جگاڑ فروخت نہیں کرسکتے۔ یہاں خود حکمران خاندان نے قطری شہزادے کے خط کا جگاڑ لگایا ہوا ہے۔ بظاہر یہ ایک لطیفہ ہے لیکن لطف یہ ہے کہ پاکستان میں ’’جگاڑ‘‘ ہر شے پر حاوی ہے۔ سیاست سے لے کر معیشت اور انتظامیہ سے لے کر سرکاری امور کی انجام دہی تک سب’’جگاڑ‘‘ پر چل رہے ہیں۔اس جگاڑ کے ذریعے
ایسے ویسے‘ کیسے کیسے ہوگئے ہیں
اپنے اطراف پر نظر ڈالیے۔ چند سال قبل جن کے پاس سائیکل نہیں تھی‘ وہ پراڈو اور مرسڈیز میں گھوم رہے ہیں جن کے پاس کھانے کی محتاجی تھی‘ وہ فائیو اسٹار سے کم بات نہیں کرتے۔ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے رضاعی بھائی اویس مظفر ٹپی نے گزشتہ دنوں دبئی میںلاکھوں درہم کی خریداری کی ہے۔ ان میں 39ہزار درہم کے تین جوتے بھی شامل ہیں جن کی پاکستانی روپے میں قیمت 11لاکھ 70ہزار روپے بنتی ہے۔ وہ دو سال قبل سندھ کے وزیر بلدیات تھے۔ نیب کی انکوائری اور ایف آئی اے کی پکڑ دھکڑ سے بچ کر بیرون ملک گئے۔ بہانہ بھائی کی میت لانے کا تھا لیکن آج تک واپس نہیں آئے۔ پاکستان کے’’جگاڑو سیاستدانوں‘‘ نے اس حسین و جمیل سر زمین کی شکل بگاڑ دی ہے۔ پاکستان بنا تو ایک ڈالر ایک روپے کا تھا‘ انہوں نے اسے 108روپے تک پہنچا دیا ہے۔ چند سو روپے میں پلنے والے خاندانوں کے لیے آج 20ہزار روپے ماہانہ بھی کم ہیں۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات آسمان سے باتیں کررہے ہیں اور مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ دبئی اور کراچی ایک ہی خط پر واقع ہے۔ درمیان میں سمندر (بحیرہ عرب) ہے لیکن دونوں کی ترقی اور نظام حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گزشتہ 30سال سے ڈالر اور درہم کی ایک ہی شرح مقرر ہے‘ قانون کی حکمرانی ایسی کہ تنہا خاتون سڑک پر سونا اچھالتی چلی جائے مگر کیا مجال کہ کوئی لوٹنے کا خیال بھی دل میں لاسکے۔ ہمارے یہاں اسٹریٹ کرائم مستقل ناسور بنا ہوا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مجرموں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کیئے ضرب عضب لگائی‘ امن و امان قائم کیا تو عوام ان کے گرویدہ ہوگئے۔ مسجد نبویؐ میں بھی راحیل شریف زندہ باد کے نعرے لگ گئے۔ حکمران اگر عوام کا خیال کریں‘ ملک سنواریں‘ مجرموں کی سر کوبی کریں‘ قومی خزانہ کو امانت سمجھیں‘ عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم سمجھیں تو پاکستان بھی سوئٹزر لینڈ اور دبئی بن سکتا ہے لیکن ’’جگاڑو سیاستدانوں‘‘ سے اس کی توقع عبث ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر