وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھاشا ڈیم ایک خطرناک منصوبہ

جمعه 09 دسمبر 2016 بھاشا ڈیم ایک خطرناک منصوبہ

سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دیا میر بھاشا ڈیم کے مالیاتی پلان کی منظور ی دے دی ہے ۔ ڈیم کے لیے فنڈز پی ایس ڈی پی سے فراہم کیے جائیں گے ۔ جبکہ واپڈا خود بھی پاور جنریشن کمپنیوں کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرے گا ۔ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے اس منصوبے کا مالیاتی پلان سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کیا ۔ یہاں 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی ۔یہ مکمل طور پر ملکی وسائل سے تعمیر کیا جائے گا ۔ اس کی تعمیر کے لیے پی ایس ڈی پی فنڈ اور واپڈا وسائل سے رقم رکھی جائے گی ،ضرورت پڑنے پر واپڈا کے موجودہ منصوبے لیز پر دیئے جائیں گے۔ اس پر 2017 ء کے آخر تک کام شروع کرنے کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہے۔
ماہرین کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی افادیت کا اظہارسینکڑوں مرتبہ کیا گیا ۔ کئی دہائیوںسے تکنیکی ماہرین قومی قیادت کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر ملک کے لئے انتہائی ضرور ی ہے۔ لیکن اس منصوبے کو تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جب بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی بات کی جاتی ہے تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی حمات اور مخالفت میں بیان بازی کی اس جنگ میں کالاباغ ڈیم کے مخالفین کی جانب سے بھاشا ڈیم کو اس کا متبادل قرار دیا جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس ڈیم کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا تھا ۔ لیکن اس منصوبے پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس منصوبے پر جاری کام کی رفتار آہستہ آہستہ سُست ہو کر رُک گئی ۔۔ اب ایک مرتبہ پھر اسے دوبارہ شروع کرنے کی بات سرکاری طور پر کی جانے لگی ہے ۔ ماضی میں ماہرین جہاں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈالنے پر پریشان نظر آتے تھے وہاں بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے پر بھی انہیں تشویش رہی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی نہیں خالصتاً فنی ہے ،جس کا ادراک ہماری سیاسی قیادت کی سطحی اور وقتی سوچ شاید ہی کر سکے۔
یہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ واپڈا اور عالمی اداروں کی ابتدائی سروے رپورٹوں خصوصاًایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ میں اس ڈیم کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔اس کی وجوہات میں کہا گیا ہے کہ بھاشا ڈیم اور اس کے گردو نواح کا علاقہ دور دراز تک خطرناک زلزلوں کی رینج میں واقع ہے ۔ اس علاقے میں گزشتہ 30 برسوں میں بڑی شدت والے خوفناک زلزلے آ چکے ہیں۔ان میں8 اکتوبر 2005 ء کا زلزلہ سب سے بڑی مثال ہے۔
ارضیاتی سائنس کے ماہرین کے مطابق وادی چلاس کے خطہ سے کوہِ ہمالیہ کی اُٹھان شروع ہوتی ہے۔یہ وہ وسیع خطہ ہے جس کے نیچے زمین کی زیریں دو بڑی پلیٹیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ان میں سے ایک پلیٹ کا نام انڈین پلیٹ اور دوسری کا نام چینی پورلیئن پلیٹ ہے۔ماہرین کے مطابق زیر زمین ان دونوں پلیٹوں کے باہم ٹکرانے کے نتیجے میں ہمالیہ اور دوسرے پہاڑ سطح زمین پر اُبھرے ہیں۔مزید یہ کہ زیر زمین یہ ٹکراؤ مسلسل جاری ہے اور اس کے باعث ہمالیہ پہاڑ اب بھی ہر سال نصف سینٹی میٹر مزید بلند ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے باعث ہمالیہ پہاڑ کے1200 میل لمبے سلسلے کی اُترائی میں ہزاروں میل کا وسیع علاقہ مسلسل ارتعاش کی حالت میں رہتا ہے۔اس ڈیم کے خطرناک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے ۔بھاشا سے اُوپر دریائے سندھ برفانی گلیشیئر کا حصہ بن جاتا ہے۔اس علاقے میں دریائے سندھ خشک اور ویران بلند پہاڑی سلسلوںکے درمیان نہایت گہرے پیچ دار راستوں سے طوفان کی شکل میں بہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑے بڑے تودے اور بڑی بڑی چٹانیں گرتی رہتی ہیں۔بعض اوقات یہ چٹانیں گرنے سے دریا کا راستہ رُک جاتا ہے اور بڑی جھیل بن جاتی ہے۔جس کے زبردست دباؤ سے دریا طوفانی انداز میں بہت بڑے سیلاب کی شکل میں اُبل پڑتا ہے اور نیچے سینکڑوں میلوں تک تمام بستیوں اور آبادیوں کو بہا لے جاتا ہے۔1841 ء میں اس قسم کے نہایت ہولناک طوفانی سیلاب نے بے شمار گاؤں اور آبادیاں نیست و نابود کر دی تھیں۔اس کے بعد بھی اس قسم کے بہت سے واقعات رُونماء ہو چکے ہیں۔ایک اہم وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بھاشا کے علاقے میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر کئی میل تک پہاڑی چٹانوں پر کھدی ہوئی بے شمار قدیم تصویریں اور ہزاروں تحریریںموجود ہیں جو زیادہ تر بدھ مت سے تعلق رکھتی ہیں۔عالمی ماہرین اور ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا بھر میں اس نوعیت کا سب سے بڑا نادر اور قدیم تاریخی ذخیرہ ہے اور اسے اہم تاریخی اثاثہ قرار دیا جا چُکا ہے۔بھاشا ڈیم کی تعمیر سے یہ سارا ذخیرہ اور اس کی ہزاروں نادر، انتہائی اہم تصاویر اور نقوش آبی ذخیرے میں غرق ہو جائیں گے۔اس صورتحال پر عالمی ادارے تشویش کا اظہار کر تے رہے ہیں۔ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث شاہراہِ قراقرم کا 130 کلو میٹر حصہ ڈوب جائے گا۔اتنی سڑک نئے سرے سے بنانا پڑے گی۔ جبکہ حویلیاں سے لے کر واڑی چلاس تک 330 کلو میٹر سڑک کی چوڑائی کو دوگنا کرنا پڑے گا۔تاکہ بھاری گاڑیوں اور مشینری کی باربرداری ممکن ہو سکے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس حصہ میں دریائے سندھ پر تعمیر شدہ چار بڑے پُل ڈوب جائیں گے۔ان میں تھلپان کا تاریخی اور مشہور پُل بھی شامل ہے۔اس طرح اس سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں 440 کلو میٹر سڑک تقریباً دوبارہ تعمیر کرنا ہو گی۔ اور یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا نیا پروجیکٹ ہوگا۔
ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے اور اعتراضات کی تائید پاکستان کے ممتاز اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر ِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی کی تحریروں سے بھی ہوتی ہے۔یہ تحریریں انہوں نے بھاشا ڈیم کے مجوزہ علاقہ وادی چلاس کے بارے میںتاریخی اور جغرافیائی نقطہ ء نظر سے تحریر کی ہیں۔ان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھاشا ڈیم کے علاقے میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع پہاڑی سلسلہ گرینائٹ کی کھوکھلی اور ناقص چٹانوں پر مشتمل ہے۔اور یہ کہ اس علاقے میں دریائے سندھ کا نہایت بلندیوں سے گرنے والا پانی صدیوں سے ہولناک تباہی مچاتا چلا آرہا ہے۔
آبی ذخائر کے ماہرین اور انجینئرز یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت د نیا بھر کے بڑے مالیاتی ادارے اس آبی منصوبے کے لئے فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ میں اس بات کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے شمالی علاقوں اورصوبہ خیبر پختونخواکے درمیان کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔شمالی علاقوں میں اس ڈیم کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔
تحقیقی اور تکنیکی رپورٹ میں بھاشا ڈیم کے انتہائی اہم منصوبے کے بارے میں ایشیائی ترقیاتی بنک کی خفیہ سروے رپورٹ، ماہرین ِ آثار قدیمہ کی رائے، اور دیگر شواہد پر مبنی زمینی حقائق ، اعداد و شمار اور ماہرین کی آراء اس ڈیم کے حق میں نہیں ہے۔یہ تمام رپورٹیں انتہائی مُستند ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ اس بنک کی مشاورتی فرم ’’ مینجمنٹ ریسورسز انٹر نیشنل انکار پورٹیڈ پنسلوانیا امریکا‘‘ کے ماہرِ اراضیات ڈی ایل گرے بل (D. L. GREYBEL ) نے 26 سال قبل تیار کی تھی اور اسے واپڈا کو بھی پیش کیا گیا تھا۔احمد حسن دانی کی کتاب بھی آج سے 21 سال پہلے شائع ہوئی تھی اور اسے شمالی علاقوں کی تاریخ کے بارے میں مسلمہ اور مستند حوالہ سمجھا جاتا ہے۔
قومی ضروریات کے مطابق بڑے ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں ہماری سیاسی قیادت کی کوتاہ نظر ی نے معاملات کو سُلجھاؤ کی بجائے مزید الجھا رہی ہے۔کالاباغ ڈیم جیسے اہم تکنیکی مسئلے کو سیاسی بھول بھلیوںمیں ڈال کر بھاشا ڈیم کو متبادل آبی ذخیرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔۔۔ صورتحال کا واحد حل سیاسی قیادت کی جانب سے دانشمندانہ فیصلوں کا متقاضی ہے۔


متعلقہ خبریں


نواز شریف نے احتساب عدالتوں سے باقاعدہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں شہلا حیات نقوی - بدھ 09 اگست 2017

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر سیاست کے میدان سے باہر پھینک دیا ہے ، اصولی طورپر ہونا یہ چاہئے تھا کہ طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے میاں نواز شریف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر سر خم کرتے ہوئے سیاست سے سبکدوش ہونے کااعلان کرکے اپنی ہی ...

نواز شریف نے احتساب عدالتوں سے باقاعدہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں

شریف خاندان اور گندی دولت وجود - هفته 22 جولائی 2017

ریمنڈ بیکر نے گندی دولت کے حوالے سے اپنی کتاب سرمایہ داری نظام کا کمزور گوشہ کے عنوان سے نواز شریف کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب ڈرٹی منی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آزاد منڈی کے نظام کی اس طرح تجدیدکیسے کی جاسکتی ہے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکتا...

شریف خاندان اور گندی دولت

نواز شریف کیخلاف فیصلہ آنے پر شہباز شریف ن لیگ کے صدر مریم نواز مشیر ہونگی وجود - اتوار 23 اپریل 2017

حمزہ شہباز پنجاب میں انتخابی مہم چلائیں گی نوجوان قیادت کے ساتھ نئے چہرے مہم کا حصہ ہونگے سینئرز کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا‘ متوقع نئے چہرے سلمان شہباز راحیل منیر ہونگے لاہور (رانا خالد محمود قمر) پاکستان مسلم لیگ ن نے اپوزیشن سے نمٹنے اور آئندہ ...

نواز شریف کیخلاف فیصلہ آنے پر شہباز شریف ن لیگ کے صدر مریم نواز مشیر ہونگی

تین حاکم ،کئی کہانیاں محمد اقبال دیوان - جمعه 07 اپریل 2017

ظفرالطاف مرکزی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ تھے ۔ضیاالحق کی کیبنٹ کی کارروائیاں اور ان کا ریکارڈ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔کابینہ کے اجلاس سے لوٹتے تو بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔حکومت نے نیاز نائیک کی جگہ پر اکائونٹس گروپ کی گلزار بانو کو سب سے اہم عہدے پر سیکرٹری کیبنٹ ...

تین حاکم ،کئی کہانیاں

افسران کی ترقی کے لیے سخت جانچ پڑتال ‘80پروموشن روک دیے گئے الیاس احمد - منگل 04 اپریل 2017

وزیراعظم نواز شریف نے اعلیٰ افسران کی پروموشن کے معاملے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے کرپٹ افسران کو لینے کے دینے پڑجانے کا امکان ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس مرتبہ سلیکشن بورڈ نمبر ایک کی سفارش پر 80 سے زائد افسران کو کلیئرنس کے باوجود پروموشن نہیں دیا اور ا...

افسران کی ترقی کے لیے سخت جانچ پڑتال ‘80پروموشن روک دیے گئے

سندھ میں نئے سیاسی رجحانات مختار عاقل - پیر 13 مارچ 2017

برصغیر کی انگریزوں سے آزادی کی تحریک کے دو قائدین، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور گاندھی جی نے انگلینڈ کی ایک ہی تعلیمی درسگاہ”لنکن اِن“ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ گاندھی تعلیم کے بعد افریقہ چلے گئے جہاں سے ان کی دو سال بعد انڈیا واپسی ہوئی،جہاں پر ممبئی بار کی جانب سے ان کے اعزاز...

سندھ میں نئے سیاسی رجحانات

قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(آخری قسط) رضوان رضی - اتوار 29 جنوری 2017

گزشتہ مضمون میں بات پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے چلی اور نمائش کنندگان تک پہنچی تھی۔ پاکستان سے ہر سال دس ارب روپے سے زائد سرمایہ اس ذریعے سے بھارت کو گود میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے عوض ہم بھارت سے ثقافتی حوالے سے جو کچھ خریدتے ہیں اس کے آئندہ نسل پر پڑنے والے اثرات...

قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(آخری قسط)

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر