وجود

... loading ...

وجود
وجود

سفر یاد۔۔۔ قسط24

جمعه 09 دسمبر 2016 سفر یاد۔۔۔ قسط24

جنادریہ میں شب و روز اکتا دینے والی یکسانیت کے ساتھ گزر رہے تھے۔ ہم تقریبا روز ہی اپنے مصری منیجر کے پاس جا کر اسے اپنی تنہائی اور بے چارگی کی کہانی سناتے تھے، ہم کہتے تھے جناب کسی پاکستانی کے بغیر ہم کیمپ میں نہیں رہ سکتے خدا کے لیے ہمارے کسی ہم وطن کو یہاں بلوائیے۔ ایک دن مصری منیجر نے ہمیں بلایا اور بتایا کہ کسی سائٹ سے ایک پاکستانی کا یہاں تبادلہ ہوا ہے وہ کل پہنچ جائے گا ،اب تو آپ خوش ہیں نا؟ ہم نے کہا ہماری تو دل کی مراد بر آئی ہے جناب ۔مصری منیجر نے کہا، ہاں کچھ دن تو آپ کے سکون سے گزر جائیں گے ۔ہم نے کہا کچھ روز کیوں ؟ جس پر منیجر صاحب نے بتایا کہ یہاں کالج میں ویلڈنگ کا کچھ کام ہے اس لیے ایک دوسری سائٹ سے ایک ویلڈر کو بلایا گیا ہے ،کام زیادہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا چلو ٹھیک ہے کچھ دن ہی سہی کسی ہم وطن کا ساتھ تو ہوگا ،کیمپ میں کچھ وقت اچھا گزر جائے گا۔ ہم خوشی خوشی جلال صاحب کے پاس پہنچ گئے اور انہیں بھی اپنی اس خوشی میں شریک کیا ، جلال صاحب بھی خوش دلی کے ساتھ ہماری خوشی میں شریک ہوگئے۔ ہم نے جلال صاحب سے کہا جیسے ہی وہ پاکستانی کالج پہنچے وہ ہمیں خبر کردیں ،چھٹی کے بعد کیمپ واپس پہنچ کر بھی ہم اس خوشی میں سرشار تھے ، اپنی خوشی میں ہم نے گلزار کو بھی شریک کیا بلکہ گلزار کو اس خوشی میں چاکلیٹ بھی کھلائے۔ گلزار نے کہا بھائی اب تو آپ ہم غریبوں کو بھول ہی جائیں گے ۔ہم نے کہا گلزار تم ہمارے اس جنادریہ جدید میں پہلے دوست ہو تم کوہم کیسے بھول سکتے ہیں ، تمہاری طرف تو آنا جانا لگا ہی رہے گا۔ اب ہم نے اگلے دن کا انتظار کرنا شروع کردیا۔ اگلے روز ہم ایک مینٹی نینس سروے کے لیے کالج کے اسٹیڈیم گئے ہوئے تھے، وہاں کام زیادہ تھا اس لیے دو بجے کے قریب واپسی ہوئی ، ہم آتے ہی جلال صاحب کی طرف بھاگے بھاگے گئے۔ جلال صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ پاکستانی ویلڈر آچکاہے لیکن ابھی کہیں سائٹ پر کام کر رہا ہے ،اس کی واپسی تین بجے ہوگی۔ جلال صاحب نے اس کا نام عبدالرحمان بتایا۔ جلال صاحب کی بھی عبدالرحمان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ہم دونوں کو تین بجنے کا انتظار تھا۔ تین بجتے ہی ہم اور جلال صاحب ایڈمن دفتر پہنچ گئے ،جہاں تمام کارکنان کو واپسی کی حاضری لگانے کے لیے آنا پڑتا تھا، ہماری نگاہیں کسی نئے چہرے کو تلاش کر رہی تھیں۔اتنے میں ایک بزرگ صورت پختون بابا نظر آئے ، شاید یہ عبدالرحمان ہیں ،ہم نے جلال صاحب سے کہا۔جلال صاحب نے جواب دیا ،ابھی پوچھ لیتے ہیں ۔جلال صاحب ان صاحب کے پاس پہنچ گئے ،ہم بھی پیچھے پیچھے پہنچے۔ جلال صاحب اور ہم نے انہیں سلام کیا ۔ جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ خان صاحب نے مصافحے کیلیے ہاتھ آگے بڑھا یا لیکن ہم نے گرم جوشی سے معانقہ فرمایا۔ ہم نے پوچھا آپ ہی عبدالرحمان ہیں ۔جواب اثبات میں ملا، ہم نے اپنا اور جلال صاحب کا تعارف کروایا۔
عبدالرحمان خان صاحب سے حال احوال لینے کے بعد جلال صاحب اپنی وین میں جا بیٹھے۔ ہماری بس نکل رہی تھی ، خان صاحب نے ہم سے بس میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ ہم نے کہا چھوڑیں خان صاحب کیمپ قریب ہی ہے پید ل چلے جائیں گے۔ خان صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا ،اتنے میں بس روانہ ہو گئی۔ ہم خان صاحب کو لیکر پیدل کیمپ کی جانب روانہ ہوئے، ہمیں تیز تیز چلنے کی عادت ہے جبکہ خان صاحب سست رفتاری کے ساتھ قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ کئی بار ہم نے چاہا کہ وہ اپنی رفتار تیز کریں ،خان صاحب کی رفتار تو تیز نہ ہوئی ہمیں ہی اپنی رفتار ان سے ہم آہنگ کرنی پڑی۔ اس دوران خان صاحب سے گپ شپ بھی ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صوابی کے رہنے والے ہیں، تلاش معاش کے سلسلے میں دس سال پہلے کراچی چلے گئے تھے جہاں چھ سات سال رہے، اس دوران مزدوری بھی کی اور ٹیکسی بھی چلائی۔ کچھ پیسے جمع ہو گئے تو واپس صوابی چلے گئے جہاں اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا، کاروبار چل پڑا تو وہ بیٹوں کے حوالے کر کے آمدنی میں مزید اضافے کے لیے ایجنٹ کو پیسے دے کر اس کمپنی میں ملازمت حاصل کی اور سعودی عرب آگئے۔ یہاں کراچی میں کسی زمانے میں سیکھا ہوا ویلڈنگ کا ہنر کام آیا اور ویلڈر بن گئے۔ آہستہ آہستہ چلتے اور گپ شپ کرتے پندرہ منٹ کا فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے کرکے ہم کیمپ پہنچے۔ ہم نے خان صاحب کواپنے کیبن میں شفٹ کرلیا۔ انہوں نے کیبن میں پہنچنے کے فوری بعد کہا دوپہر کھانا نہیں کھایا اس لیے جو ہے جلدی سے کھانے کے لیے دے دو۔ ہم نے کہا خان صاحب ہمارے پاس تو اس وقت کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ویسے بھی ہم خود کھانا نہیں پکاتے ۔صبح جوس اور بن پر گزارا ہے، دوپہر کو پھل کھا لیتے ہیں اور رات کا کھانا کھانے ایک دوست کے پاس جاتے ہیں وہ پکاتا ہے اور ہم دونوں کھا لیتے ہیں۔ خان صاحب نے کھانے کے لیے زیادہ اصرار کیا تو ہم نے اچھے میزبان کی طرح ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جنادریہ بازار کا رخ کیا۔ وہاں سے بن اور جوس لیکر ہانپتے کانپتے کیمپ پہنچے اور خان صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔ خان صاحب نے کہا ان سے کہاں گزارا ہوگا ،روٹی سالن کا انتظام ہوجاتا تو اچھا تھا۔ ہم نے کہا آپ یہ تو کھائیں ، رات کو روٹی سالن کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر ہم کچھ دیر سستانے کے لیے لیٹ گئے۔۔۔ جاری ہے


متعلقہ خبریں


سفر یاد۔۔۔ آخری قسط شاہد اے خان - منگل 31 جنوری 2017

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...

سفر یاد۔۔۔ 		آخری قسط

سفر یاد۔۔۔ قسط49 شاہد اے خان - پیر 30 جنوری 2017

سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط49

سفر یاد۔۔۔ قسط47 شاہد اے خان - هفته 28 جنوری 2017

اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط47

سفر یاد۔۔۔ قسط46 شاہد اے خان - جمعرات 26 جنوری 2017

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط46

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط44 شاہد اے خان - جمعه 20 جنوری 2017

صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط44

سفر یاد۔۔۔ قسط43 شاہد اے خان - جمعرات 19 جنوری 2017

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط42 شاہد اے خان - بدھ 11 جنوری 2017

نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط42

سفر یاد۔۔۔ قسط41 شاہد اے خان - هفته 07 جنوری 2017

رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط41

سفر یاد۔۔۔ قسط40 شاہد اے خان - جمعه 06 جنوری 2017

ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط40

سفر یاد۔۔۔ قسط39 شاہد اے خان - جمعرات 05 جنوری 2017

ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط39

سفر یاد۔۔۔ قسط36 شاہد اے خان - اتوار 01 جنوری 2017

ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...

سفر یاد۔۔۔ قسط36

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر