وجود

... loading ...

وجود
وجود

میاں نواز شریف کا احساسِ کمتری

جمعرات 08 دسمبر 2016 میاں نواز شریف کا احساسِ کمتری

میاں نواز شریف کی شخصیت کا جائزہ لیں توان کی ذات میں لوئر مڈل کلاس کی وہ تمام محرومیاں یک جا نظر آئیں گی جو گھر میں موجود ایک ’’زبردست‘‘ ابا جی کی بدولت بچے کی شخصیت کو یا تو دبا دیتی ہیں یا پوری عمر کے لیے اس میں احساسِ کمتری سمو دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جمعہ کی چھٹی ختم کرنے سے لے کر سر پر مصنوعی بال لگوانے تک ایسی ایسی حرکتیں کیں کہ کسی نو دولتیے دکاندار کے بچوں کا گمان ہوتا رہا۔ یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کے ابا جی تو کاروباری تھے تو پھر حرکتیں نو دولتیوں والی کیوں رہیں؟ تو سیدھا سا جواب ہے کہ جب تک اتفاق میں برکت تھی اور باؤ شریف اور ان کے چھ دیگر بھائی اکٹھے رہتے تھے تو اصول یہ تھا کہ جو چیز ایک گھر میں آئے گی باقی چھ گھروں میں بھی خود بخود وہی اور اسی معیار کی جائے گی۔ ایک بچے کو اگر ایک ماڈل کی گاڑی ملے گی تو باقی تمام کزنوں کو بھی اسی کا حقدار گردانا جائے گا۔ اس لیے ’’زیادہ خرچے ‘‘ کے خوف سے باؤ شریف کے بچوں کی بہت سی خواہشات دل میں ہی رہ گئیں۔
اب یہ نا آسودہ خواہشات ان کو ستاتی ہیں اور جب بندہ بیس کروڑ لوگوں کے ملک کا وزیر اعظم مل جائے تو پھر تو اور بھی ستاتی ہیں۔ ہاتھ چھوڑ کر موٹرسائیکل چلانا نہ سہی یا پھر نئی کرونا کے پیچھے زنجیروں سے پیلی پتی کے خالی سبز ڈبے لٹکانا نہ سہی، لیکن اپنی سرخ ’شاراڈ‘ کو تیل مار کے ، اونچی آواز میں ڈیک لگا کر ڈرائیو کر کے ’اُس ‘کی گلی کا ایک چکر تو بنتا ہے۔ چھوٹا بھائی تو اس سے ایک آدھ ہاتھ آگے ہی نکل جاتا ہے لیکن بڑے بھائی صرف ان لوگوں میں سے ہیں جو اُن احساس ہائے کمتری سے نکلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے وہ سہگلوں کے ان بچوں کو اپنا دستِ نگر دیکھنا چاہتے ہیں جو اُس وقت ایچی سن میں جایا کرتے تھے جب میاں صاحب گرجا اسکول میں جاتے تھے۔
آج کل میاں صاحب اور ان کے راتب خوروں کو خود کو سیکولر ظاہر کرنے کا بھوت سوار ہے۔ ایک راتب خور تو یہاں تک گرگیا ہے کہ اپنے باپ سے ہی برأت کا اظہار کردیاکہ میرے ابا جی جو ماڈل ٹاون کی ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے ، میں ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوں۔ اس سمت میں سرپٹ بھاگتے وزیر اعظم نوازشریف نے معروف مسلمان پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب قائد اعظم یونیورسٹی کے ’’نیشنل سنٹر فار فزکس اور فیلو شپ ‘‘ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کو حتمی دستخطوں کے لیے صدرکے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے ایک باخبر صحافی مہتاب عزیز نے اس طرف توجہ دلائی ہے اور لکھا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے 70 کے عشرے کے اوائل میں پاکستان میں فزکس میں تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا ’’خیال ‘‘ پیش کیا تھا۔ جس کی منظوری اْس وقت کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین نے دے دی تھی۔ اس کے لیے حکومت پاکستان نے فنڈ مختص کیا، اور کئی سال تک اس منصوبے کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔ اسی دوران 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ جس کے فوری بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے غصے اور انتقام میں ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان میں فزکس کی تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا سارا منصوبہ اور اس حوالے سے ہونے والی اب تک کی تمام منصوبہ بندی کے کاغذات لے کر اٹلی چلے گئے۔ یوں انہوں نے پاکستانی حکومت کے پیسوں سے ہونے والی منصوبہ بندی کو استعمال کرتے ہوئے اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھئیریٹکل فزکس کے نام سے تحقیقی ادارہ قائم کیا۔ تا ہم گورنمنٹ کالج کے ریکارڈ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دوران موصوف حکومتِ پاکستان کو بھی چھٹی کی جھوٹی سچی درخواستیں بھیج کر تنخواہ پاتے رہے تا ہم اٹلی والے ادارے سے وہ تادمِ مرگ وابستہ رہے۔
دوسری جانب پاکستان میں ایک مرتبہ فنڈز مختص ہونے کے باوجود جب تحقیقاتی ادارہ نہ بن سکا تو دوبارہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ لیکن اس کا بیڑا ڈاکڑعبدالسلام کے پائے کے ہی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین نے اٹھایا، اور شبانہ روز محنت نے بالآخر پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے تحقیقاتی ادارے کی تخلیق کا خواب سچ کر دکھایا۔ جس کا نام نیشنل سنٹر فار فزکس رکھا گیا۔ اس تحقیقاتی مرکز کا معیار اتنا اعلیٰ ہے کہ یورپی تنظیم برائے جوہری تحقیق ‘سرن’ سمیت فزکس کے اکثر اداروں کی ممبر شپ اسے حاصل ہو گئی۔ ڈاکٹر ریاض الدین نے نہ صرف یہ ادارہ قائم کرنے کے لیے دن رات محنت کی، بلکہ وہ دم آخر تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ اسی لیے ڈاکٹر ریاض الدین کی وفات کے بعد نیشنل سینٹر فار فزکس کا نام ڈاکٹر ریاض الدین نیشنل سنٹر فار فزکس رکھ دیا گیا‘‘۔
اب ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب ادارے کا نام تبدیل کر کے اس کو ڈاکٹر عبد السلام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔قائداعظم یونیوسٹی کے ایک دوست سے پوچھا کہ نام کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ تو اْس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ریاض دنیا کے صف اول کے سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعمل مسلمان بھی تھے۔ پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کی وجہ سے وہ اکثر ہودبھائی کی نسل کے لوگوں کو اس یونیورسٹی میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اسی لیے وہ فزکس کی دنیا میں گراں قدر خدمات کے باوجود گمنام رہے یا رکھے گئے۔ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم تحقیقاتی مرکز کا کسی باعمل انسان سے منسوب ہونا آج کی دنیا میں قابل قبول نہ ہو‘‘۔ڈاکٹر ریاض الدین صاحب کا تفصیلی تعارف وکی پیڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام کیوں وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو نہ دیا جا سکا کہ جس کے مشیر ڈاکٹر سلام صاحب تھے؟ اور کیسے 1973 میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کی وزارت کے سائنس دانوں نے ایک بہت بڑا سادہ بارود کا دھماکا کر کے اس کو ایٹمی دھماکے کا نام دینے کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے عین وقت پر پکڑ لیا تھا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن قادیانی لابی نے ڈاکٹر ریاض الدین کے اس دنیا سے جانے کا انتظار کیا اور جب وہ دنیا سے 2013 میں پردہ فرما گئے تو پھر یہ سمری چلائی گئی اور یوں میاں صاحب نے یہ سمری منظور کر لی۔
ڈاکٹر عبد السلام کی پاکستان اور اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی لیبارٹری یا اس طرح کے کسی اور ادارے کو ان کے نام سے موسوم کر دیا جاتا؟کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کی ’’خدمات‘‘ اپنی جگہ پر لیکن ربوہ میں ایک کالج ان کے نام پر بنا دیا جاتا۔ ویسے بھی پنجاب حکومت قادیانیوں کو ان کے تعلیمی ادارے جو بھٹو صاحب نے 1973 نے قومیا لیے تھے،ان کو واپس کرنے کے لیے مرے جارہی ہے۔تو ایسے میں ایسا کوئی ادارہ جس سے ان کی روح کو بالیدگی ملتی رہتی اور ان کے عقیدے کے لوگ بھی اس سے مستفید ہوتے رہتے۔
ایسے میں میاں صاحب کی ایک اور خاصیت کا ذکر نہ کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔ وہ یاروں کے یار ہیں ، یاری میں وہ عزت، غیرت، حمیت، سب کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ جیسے ان کی بیگم صاحبہ ، محترمہ کلثوم نوازشریف صاحبہ جب ان کی رہائی کے لیے نکلی تھیں تو ان کو لاہور میں جس شخص نے کئی گھنٹوں تک تماشا بنایا تھا اس کا نام بریگیڈیئر اعجاز شاہ تھا۔ میاں نواز شریف کے خاندان نے جس طرح بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی سفارش پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے اس کے سگے بھانجے ، ڈاکٹر مجاہد کامران کو بچانے کے لیے صوبائی اسمبلی میں ترمیم کرائی ، اس سے تو لگتا یہی ہے کہ جب وہ بخشنے پر آئیں تو عزت، غیرت، حمیت تو رہی ایک طرف وہ اس عمل میں تو اپنے خاندان کی خواتین کی عزت و ناموس کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اب ہوا یہ کہ جب میاں نواز شریف پھانسی کی کوٹھڑی میں بند تھے ، کچھ لوگوں کے بقول جنرل پرویز مشرف کی مرضی و منشاء سے اور کچھ کے بقول اپنے خلیفہ کے حکم پر، قبیلہ قادیان کے چشم و چراغ بریگیڈیئر نیاز آگے آئے اور یوں میاں صاحب کو گلو خلاصی کروا کر کے ان کو سرور پیلس روانہ کر دیا گیا۔ اب بریگیڈیئر نیاز کو نوازنے کا موقع ملا تو پہلے ان کو یوکرین سے آنے والے ٹینکوں کے انجن تیارو فراہمی کا آرڈر دے کر مالا مال کیا گیا۔ شنید ہے کہ اس تحقیقی لیبارٹری کا نام بھی انہی کو راضی کرنے کے لیے تبدیل کیا گیا۔ واللہ اعلم
دیکھنا یہ ہے نواز شریف کی ہڈیوں پر پلنے والا راتب خور جوازی قبیلہ اس کا کیا جواز تلاش کر کے قوم کو مہیا کرتا ہے اور اس عمل کو عین جمہوریت اور اسلام کی روح کے عین مطابق ثابت کرتا ہے۔ اللہ بہت محبت کرنے والا ہے، وہ ایسے ہی کسی پر عذاب مسلط نہیں کرتا، وہ بندے کے اپنے اعمال ہوتے ہیں۔ پھانسی کے پھندے سے واپس آنے والے کو تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
دوزخ کے فرشتے نے کہا تھا کہ دنیا سے آنے والا ہر دوزخی اپنی آگ ساتھ لے کر آتا ہے۔ لگتا ہے میاں صاحب اپنی آگ اکٹھی کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر