وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان کے روس کے ساتھ بات چیت کے خفیہ اشارے

پیر 23 نومبر 2015 طالبان کے روس کے ساتھ بات چیت کے خفیہ اشارے

mullah-umar

(گزشتہ دنوں العربیہ نیوز چینل کے نامہ نگار وں نے افغان دارالحکومت کابل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک ٹی وی کے پروگرام کے لیے کچھ اہم شخصیات کے انٹرویو کیے اور دو دستاویزی فلمیں بھی تیار کیں۔ انہوں نے اپنے دورہ کابل میں وہاں موجود طالبان قیادت سے ملاقات بھی کی۔ محمود الورواری نے دو سال قبل فوت ہونے والے طالبان لیڈر ملا محمد عمر کی زندگی کے بارے میں کئی ایسی باتیں بھی معلوم کی ہیں جو آج تک پردہ راز میں تھیں۔یہ ایک اہم ترین کاوش ہے جس میں افغانستان کے موجودہ حالات کی ایک جھلک بھی ہےاور ماضی میں طالبان تحریک کے کردار کی ایک تصویر بھی سامنےآتی ہے۔اس کے علاوہ ملاعمر کی زندگی کے بعض گوشے بھی اس سے واضح ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بالواسطہ طور پر داعش کے پس پردہ امریکی کھیل کا ایک پہلو بھی منکشف ہوتا ہے۔اس تحریر میں روس کے علاقے میں بڑھتے ہوئے کر دار کی بھی ایک جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اور عرب دنیا کا ان حالات کو دیکھنے کا تناظر بھی واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “وجود ڈاٹ کام” اس روداد کو جوں کا تُوں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے۔ )


نامہ نگاروں کی ملاقات طالبان دور کے وزیرخارجہ اور ملا محمد عمر کے پرنسپل سیکرٹری مولوی احمد متوکل سے ہوئی۔ مولوی متوکل ایک سلجھی شخصیت ہیں اور نہایت محتاط انداز میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ملاعمر کی زندگی کے بعض گم نام گوشوں سے بھی پردہ اٹھایا۔ طویل عرصے تک ملاعمر کی رفاقت کے باعث مولوی متوکل جانتے ہیں کہ ملاعمر اورالقاعدہ کے مقتول رہ نما اسامہ بن لادن کے درمیان کس نوعیت کے تعلقات قائم تھے۔

ملا عمرکی وفات کے دو سال گزرجانے کے باوجود ان کی موت کی خبر کو چھپائے رکھنے میں کیا راز تھا؟ اس سوال کے جواب میں مولوی متوکل نے کہا ہے کہ ہم جانتے تھے کہ ملاعمر مجاہد فوت ہو چکے ہیں۔ اگر ہم ان کی وفات کی خبر فورا مشتہر کر دیتے تو اس کے نتیجے میں طالبان کی صفوں میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا۔ طالبان کو باہم متحد رکھنے کے لیے ملا عمر کی وفات کی خبر خفیہ رکھی گئی۔

اس انٹرویو کی ایک حیران کن بات یہ ہے کہ مولوی احمد متوکل نے ملا عمرمحمد عمر مرحوم کی جوانی کی ایک یاد گار تصویر بھی مہیا کی جو اُن کی مروجہ تصویر سے بالکل مختلف ہے۔

محمد الورواری نے جب مولوی متوکل سے ملاعمر کی گھنی داڑھی اور ایک آنکھ کے بغیر انٹرنیٹ پر مشہور ہونے والی تصویر کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تصویر جعلی ہے۔ طالبان کی جانب سے اس تصویر پر اس لیے اعتراض نہیں کیا گیا کیونکہ اصل تصویر سامنے آنے سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ امریکی انٹیلی جنس ادارے بھی ملا عمر کا تعاقب کر رہے تھے۔

العربیہ کے نامہ نگار نے مولوی متوکل کو ایک فوٹیج دکھائی جس میں ملاعمر کو کندھے پر “آرپی جی” راکٹ اٹھائے دکھایا گیا ہے۔ الورواری نے اس کی تصدیق چاہی تو متوکل مسکرائے مگراس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

محمود الورواری کے کابل میں مشاہدات

العربیہ کے نامہ نگار نے کابل میں جس بھی اہم شخصیت یا دانشور سے ملاقات کی اس سے بات چیت میں دولت اسلامی کہلوانے والی تنظیم “داعش” کے حوالے سے سوال و جواب ضرور ہوئے۔ افغانستان میں “داعش” کے حوالے سے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ اسے روس پر رعب اور خوف طاری کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ “داعش” افغانستان کی شمالی سرحدودں سے گزر کر سوویت یونین کی سابقہ ریاستوں میں دراندازی اور انتشار پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ داعش کا بڑھتا ہوا خوف محض خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

چند ماہ قبل داعش نے انٹرنیٹ پر روسی زبان میں ایک ویڈیو فوٹیج پوسٹ کی تھی جس میں ایک دس سالہ بچے کے ہاتھوں قازقستان کے دو شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے دکھایا گیا تھا۔ اس فوٹیج کا مقصد بھی روس کو یہ پیغام دینا تھا کہ داعش اس کے پہلو میں پہنچ چکی ہے۔ داعش کی جانب سے سابق سوویت یونین کی ریاستوں اور افغانستان سے متصل وسطی ایشیائی ملکوں میں سرگرم ہونا ماسکو کی شام میں مداخلت کا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔

ملا متوکل نے کہا کہ ملاعمر نے اسامہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے ہم اسامہ کو ملک بدر کریں یا واشنگٹن کے حوالے کریں۔ امریکیوں نے افغانستان پر ہرصورت میں قبضے کا تہیہ کر رکھا ہے

اس ضمن میں ایک روسی عہدیدار زامیر کابولوف کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ داعش شمالی افغانستان میں اپنی قوت مجتمع کر رہی ہے، جہاں وسطی ایشیائی ریاستوں کے جنگجو اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے شمال مشرقی افغانستان میں داعشی جنگجووؤں کی تعداد کا اندازہ پانچ ہزار بتایا۔ مسٹر کابلوف کی یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ داعش جنگجو افغانستان میں امریکی اور دوسری غیرملکی فوج سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہیں کسی جگہ افغان فورسز سے برسرپیکار دیکھا گیا ہے۔

داعش افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کے خلاف نہیں لڑ رہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم اس علاقے میں صرف روس کے خلاف جنگ چھیڑنے کی خواہاں ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف وہی لوگ متحد ہو رہے ہیں جنہوں نے 1980ء کے عشرے میں افغانستان سے روسی فوج کو مار بھگایا تھا۔

روس اور طالبان

افغانستان میں داعش کے بڑھتے خطرات کے بعد یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روسی حکومت اپنی سابقہ دشمن طالبان تحریک کے ساتھ داعش کے خلاف گٹھ جوڑ کرنا چاہتی ہے۔ داعش کی جانب سے افغانستان میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے باعث طالبان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان بھی اپنی بقاء کے لیے مشوش دکھائی دیتے ہیں۔ داعش جس تیزی کے ساتھ عسکری سازوسامان اور مالی وسائل تک رسائی حاصل کر رہی ہے وہ طالبان کے لیے خطرے سے کم نہیں۔

امریکی ویب سائیٹ”ڈیلی بیسٹ” کے مطابق افغان تحریک طالبان نے سابق سوویت یونین کی بعض پڑوسی ریاستوں کے ساتھ بھی روابط بڑھانا شروع کیے ہیں۔ یہاں تک کہ 1989ء میں افغانستان سے نکالے جانے والے روس کے ساتھ بھی طالبان کی خفیہ بات چیت کےاشارے ملے ہیں۔

مولوی متوکل نے کہا کہ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا

ماسکو اور طالبان کے درمیان روابط کے حوالے سے بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں تاجکستان سے قریب افغان صوبہ قندوز پر طالبان جنگجووؤں کا قبضہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا اس قبضے میں طالبان کو کسی بیرونی طاقت کی مدد حاصل تھی یا نہیں؟

میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں ماہ افغانستان کے نائب صدر اور تاجک رہ نما جنرل عبدالرشید دوستم نے ماسکو اور گروزنی کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے طالبان کے حوالے سے زیادہ سخت لہجہ اختیار نہیں کیا مگر داعش پر کڑی تنقید کی۔ گروزنی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل دوستم نے کہا کہ دولت مشترکہ کے تمام ممالک “داعش” کی سرکوبی کے لیے ہمارے ساتھ مل کر لڑنے کو تیار ہیں۔

اسی دوران افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کابل کے ساتھ تعاون کو تیار ہے۔ انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوجیں مزید دو سال تک افغانستان میں رہنے دیں۔ کیا افغان حکومت کی طرف سے امریکی فوجوں کے انخلاء کو روکنے کا مطالبہ صرف داعش کے خلاف جنگ ہے یا کابل کو ایک بار پھر روس کی مداخلت کا بھی اندیشہ ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔

داعش اور افغانستان

افغانستان میں العربیہ کے نامہ نگار سے ملاقات کرنے والے اہم عہدیداروں کو افغانستان میں “داعش” کی موجودگی کے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم سب کا ایک ہی جواب تھا کہ “داعش” کا خطرہ جتنا میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اتنا نہیں ہے۔ تاہم داعش کے وجود سے انکار بھی ممکن نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں نسبتا امن قائم ہے اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی “القاعدہ ۔ طالبان” نے کہا ہے کہ دولت اسلامی “داعش” افغانستان میں تیزی کے ساتھ اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ داعش افغانستان کے جنگجووؤں میں تیزی کے ساتھ مقبول بھی ہو رہی ہے۔یو این کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند تنظیم”داعش” کے افغانستان کے 25 صوبوں میں مسلح گروپوں کے ساتھ روابط ہیں۔

ایک افغان عہدیدار نے اسی حوالے سےبات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال نہایت پیچیدہ ہے۔ افغان حکومت ہی نہیں بلکہ طالبان بھی داعش کو یہاں انڈے بچے دینے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ داعش طالبان کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان سے برسرجنگ ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی “القاعدہ ۔ طالبان” کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کی صفوں میں موجود 10 فی صد جنگجو داعش کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو طالبان کی صفوں میں یا تو نئے شامل ہوئے ہیں یا ان کے طالبان کی مرکزی قیادت کے ساتھ اختلافات ہیں۔ داعش کی حمایت کرنے والے طالبان جنگجو اپنی ایک الگ شناخت کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان کے روایتی انداز سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔

عبدالحکیم مجاہد

العربیہ کے نامہ نگار محمود الورواری نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران دارالحکومت کابل میں تحریک طالبان کے بانی رہ نما اور معتدل شخصیت ملا عبدالحکیم مجاہد سے ملاقات کی۔ ملا عبدالحکیم 1990ء کے عشرے میں طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ میں افغانستان کے مندوب مقرر کیے گئے تھے۔ چونکہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے انہیں نیویارک میں ‘یو این’ کے صدر دفتر میں جگہ نہیں مل سکی۔ انہوں نے امریکا ہی میں اپنا دفتر بنایا۔ 2001ء میں نائن الیون کے واقعے سے قبل ملا عبدالحکیم مجاہد طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے لیے کوشاں رہے۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد جب امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اسامہ کی امریکیوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرنے والوں میں عبدالحکیم مجاہد بھی پیش پیش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری ملت کو قربان کرنے کے بجائے ایک شخص کی قربانی دینا زیادہ بہتر ہے۔

کابل میں ملاعبدالحکیم مجاہد کی رہائش گاہ سے متصل افغانستان کی امن کونسل کا صدر دفتر واقع ہے۔ یہ کونسل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے 2010ء میں قائم کی تھی جس کا مقصد ملک کے ناراض گروپوں بالخصوص طالبان کے ساتھ مصالحتی کوششوں کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ کونسل اور اس کا دفتر آج بھی موجود ہیں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔

مولوی احمد متوکل کے مطابق ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان تحریک کمزور ضرور ہوئی ہے مگر ثابت قدم ہے۔طالبان تحریک داعش کے خلاف جنگ میں کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی

ملا عبدالحکیم نے العربیہ کے نامہ نگار سے معتدل انداز میں بات کی۔ ان کی گفتگو سے افغانستان میں قیام امن کی خواہش نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔ مہمان نواز عبدالحکیم مجاہد کی گھنی داڑھی میں سفیدی نہیں آئی اور نہ ہی ان کے چہرے پر بڑھاپے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے العربیہ سے نہایت ہلکے پھلکے اور مزاحیہ پیرائے میں باتیں کرتے ہوئے کئی سنجیدہ سوالوں کے جوابات دیے۔اُنہوں نے کہا کہ جب امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو میں نے اس وقت کے طالبان وزیرخارجہ اور ملا عمر کے ترجمان ملا احمد متوکل سے درخواست کی کہ آپ اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ملاعمر سے مشورے کے بعد اس کا جواب دوں گا۔ چند روز بعد ملا متوکل نے کہا کہ ملاعمر نے اسامہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے ہم اسامہ کو ملک بدر کریں یا واشنگٹن کے حوالے کریں۔ امریکیوں نے افغانستان پر ہرصورت میں قبضے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

ملا عبدالحکیم مجاہد عربی سمجھ لیتے ہیں مگر بول نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں واپس افغانستان آیا تو ملا احمد متوکل سے ملاقات کی۔ مزاح مزاح میں ان سے کہا کہ طالبان مجھے اغواء کرنا چاہتے تھے۔ میں خود ہی چل کر آپ کے پاس آ گیا ہوں۔

ملا حکیم میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر فارسی یا پشتو میں بات کرتے ہیں۔ انگریزی بولنے پر قدرت رکھتے ہیں مگر اس میں بات نہیں کرتے۔ محمود الورواری کو کہنے لگے”جو شخص میرے گھر میں داخل ہو گیا وہ محفوظ ہو گیا”۔

اسامہ بن لادن کی حوالگی اور ملا متوکل

العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا احمد متوکل نے بتایا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو 2001ء میں امریکا کے حوالے کیوں نہ کیا۔ محمود الورواری نے استفسار کیا کہ جب ملا عبدالحکیم مجاہد نے آپ سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی گزارش کی تھی تو آپ نے انہیں ملا عمرسے مشورے کے بعد آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ ملا عمرنے کیا مشورہ دیا تھا۔

ملا احمد متوکل نے بتایا کہ میں اس وقت وزیرخارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بن لادن کی امریکا حوالگی کا مطالبہ صرف ملا عبدالحکیم کی طرف سے نہیں بلکہ کئی عرب اور مسلمان ملکوں کی طرف سے بھی کیا جا رہا تھا۔ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا۔ ہم مسلمان ہیں اور افغانستان میں اسلامی حکومت قائم تھی۔ اس لیے ہم بن لادن کو کسی غیرمسلم ملک کے بجائے مسلمان ریاست کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔اس حوالے سے ابھی ہم کوئی فیصلہ کر ہی نہیں پائے تھے کہ امریکیوں نے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔ ملا عمر حقیقی معنوں میں بن لادن کا معاملہ حل کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

انٹرویو کے دوران ملا متوکل سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی ملا عمر دو سال قبل انتقال کر گئے تھے تو انہوں نے ہاں میں سرہلایا اور کہا کہ اس کی خبر اس لیے پوشیدہ رکھی گئی تاکہ طالبان کی صفوں کو متحد رکھا جا سکے۔ ملا عمرکی وفات کی خبر تحریک طالبان میں ایک زلزلہ بپا کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں تحریک کی ٹوٹ پھوٹ کے خدشات تھے۔ یہ خبر اسامہ بن لادن کے قتل سے بھی زیادہ بھاری ثابت ہونا تھی۔ اس لیے اسے چھپا کر رکھا گیا۔

ملا عمر کی تصویر

العربیہ کے نامہ نگار”محمود الورواری” نے ملا احمد متوکل سے ملا عمر مرحوم کی تصویر کی شناخت کے بارے میں پوچھا اور ساتھ ہی ان سے ملا عمر کی کوئی صاف اور واضح تصویر دینے کی بھی درخواست کی۔

پہلے تو انہوں نے بات نہیں مانی، تاہم بعد ازاں میرے اور ملا متوکل کے ایک مشترکہ دوست کی مدد سے موبائل کے ذریعے ملاعمر کی ایک تصویر ارسال کی۔ یہ تصویر حیران کن ہے۔ ہم سب کے ذہنوں میں ملاعمر کی ایک آنکھ والی تصویر تھی مگر ملا متوکل کی جانب سے دی گئی تصویراس سے بالکل مختلف نکلی۔ ملاعمر کی نیلی آنکھیں ہالی وڈ کے کسی فلمی ہیرو کی طرح خوبصورت ہیں۔

طالبان داعش سے طاقتور

ملاعمر کے دست راست مولوی احمد متوکل سے افغانستان میں سرگرم دولت اسلامی “داعش” کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ “داعش” کا طالبان سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان داعش سے زیادہ طاقتور ہیں۔ داعش جس تیزی کے ساتھ اٹھی ہے اسی سرعت کے ساتھ زوال کا شکار ہو گی جب کہ طالبان افغان عوام میں اپنی گہری اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔داعش مخالف جنگ میں طالبان اور روس کے درمیان اتحاد کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے ملا متوکل نے کہا کہ ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان تحریک کمزور ضرور ہوئی ہے مگر ثابت قدم ہے۔ داعش کے خلاف جنگ میں کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی۔

تحریک طالبان کی شروعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملا احمد متوکل ماضی میں چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان دراصل دینی مدارس کے طلباء کی ایک تحریک تھی جس کا آغاز جنوب مغربی افغانستان کے صوبہ ننگر ہار سے ہوا۔ پاکستان کی سرحد سے متصل صوبے میں یہ تحریک 1994ء میں ملا عمر نے قائم کی۔ ابتدامیں اس تحریک کا مقصد ملک میں غیراخلاقی مظاہر اور لوٹ مار کا خاتمہ تھا۔ بعد ازاں ملک میں قیام امن کے لیے مساعی بھی تحریک کا حصہ بن گئیں۔ دینی مدارس کے طلباء نے تحریک کو مضبوط کیا۔اور 1994ء اور 1996ء کے عرصے میں طالبان نے افغانستان کے وسیع وعریض علاقے پر اپنا سکہ جما لیا تھا۔

2001ء میں جب امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا متوکل نے خود کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا۔ امریکا نے انہیں دو سال تک بگرام جیل میں قید رکھا۔ سنہ 2004ء میں رہائی کے بعد وہ حامد کرزئی کے قریب رہے۔ اب بھی افغانستان میں انہیں سیاسی حلقوں میں نہایت ادب واحترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس تحریک طالبان کا کوئی عہدہ نہیں مگر ان کے دل میں طالبان کے لیے محبت اب بھی موجود ہے۔

(ابل ۔ محمود الورواری)

بشکریہ العربیہ نیوز


متعلقہ خبریں


6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظ...

6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

حکومت سندھ نے 30پرائمری ااسکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈ کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے 1ارب 52 کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار روپے کی منظوری دی محکمہ خزانہ سے رقم دینے کی سفارش بھی کردی گئی اسکولوں کی تعمیرات رواں ماہ میں ہی شروع کردی جائے گی۔

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگل شدہ اسلحہ ڈیلروں اور محکمہ داخلہ کی مدد سے لائسنس یافتہ بنائے جانے انکشاف ہوا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق حیدرآباد میں کسٹم انسپکٹر مومن شاہ کے گھر سے سڑسٹھ لائسنس یافتہ ہتھیار ملے۔تصدیق کرائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس...

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان وجود - بدھ 27 مارچ 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے جیل میں رکھ لیں مگر باقی رہنماں کو رہا کردیں۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے کہنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی 25 مئی کی پٹیشن کو سنا جائے اور نو مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل...

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک وجود - بدھ 27 مارچ 2024

خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں 5 چینی باشندوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈی آئی جی مالاکنڈ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی مسافروں کی گاڑی سے ٹکرائی، گاڑی پر حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔بشام سے پ...

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

سیکیورٹی فورسز نے تربت میں پاک بحریہ کے ائیر بیس پی این ایس صدیق پر دہشتگرد حملے کی کوشش ناکام بنادی، فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک کر دیا جبکہ ایک سپاہی شہید ہوگیا ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب دہشت گردوں نے تربت میں پ...

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

اسرائیل نے سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ہوا میں اڑاتے ہوئے مزید 81فلسطینیوں کو شہید کردیا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے آٹھ واقعات میں مزید 81 فلسطینی شہید اور 93 زخمی ہوگئے۔الجزیرہ کے مطابق رفح میں ایک گھ...

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں وجود - بدھ 27 مارچ 2024

جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور دو روز میں چوروں نے 4طالب علموں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کردیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے سبب نہ صرف جامعہ کی حدود میں چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہورہ...

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور وجود - پیر 25 مارچ 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 7اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔پیر کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر امریکا نے اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے قرارداد کے ...

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ وجود - پیر 25 مارچ 2024

ملک میں یومیہ چار ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ کا انکشاف ہوا ہے-تیل کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو ماہانہ تین کروڑ چھپن لاکھ ڈالرزکا نقصان ہورہا ہے۔ آئل کمپنیز نے اسمگلنگ کی روک تھام اورکارروائی کیلئیحکومت اور اوگرا سیمدد مانگ لی ہے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نیسیکریٹری پیٹرولیم کو ...

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے وجود - پیر 25 مارچ 2024

محکمہ صحت سندھ نے آٹومیشن پروجیکٹ کے کروڑوں روپے کی رقم ہوا میں اڑادی۔ سات سال قبل پینسٹھ کروڑ کی لاگت سے شروع ہونے والا پروجیکٹ تاحال فعال نہ ہوسکا۔مانیٹرنگ رپورٹ میں پروجیکٹ کے گھپلوں پر بڑے انکشافات کیے گئے ۔کمپنی نے پروجیکٹ پر حیرت انگیز طور پر انتالیس کروڑ خرچ کردئے ۔لیکن سا...

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار وجود - پیر 25 مارچ 2024

ایف آئی اے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کراچی نے معصوم شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم کو پی آئی بی کالونی کراچی سے گرفتار کیا گیا۔گرفتار ملزم ویزا فراڈ کے جرم میں ملوث تھا۔ملزم نے خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ ج...

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر