وجود

... loading ...

وجود
وجود

طریقہ واردات کی یکسانیت

هفته 21 نومبر 2015 طریقہ واردات کی یکسانیت

najam and parvaiz

یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب فاتحِ کارگل بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں جمہوریت کے نازک پودے پر تازہ شب خون مارا تھا اور مشرف صاحب کے ساتھی اور ان کے(اب سابقہ) ادارے کے تمام ماتحت شعبہ جات ہر گلی محلے میں اس غیر آئینی اور غیر قانونی حرکت کے ’جواز ‘ کی تلاش میں گھوم رہے تھے ۔یہ ’جوازی‘ آپ کو ہر فائیو اسٹار محفل پی ٹی وی کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرامات کے علاوہ مختلف اخبارات کے نیوز روم میں مل جاتے تھے۔ اُس وقت یہ لوگ اس جواز کی تلاش میں کیا کیا مسخریاں کرتے پائے جاتے، اگر ان کی تفصیل کو مرتب کر لیا جائے تو ڈاکٹر یونس بٹ کی چھٹی ہو جائے اور مشتاق یوسفی مزید کچھ لکھنے سے توبہ کر لیں۔

بس ایک دانہ چکھ لیں تو آپ کو ان جوازیوں کی مبلغ اوقات کا پتہ چل جائے گا۔ ایک این جی او میں کام کرنے والے ایک جوازی جن کی ڈیوٹی ہم پر لگی ہوئی تھی، ان کا ایک قضیہ ہم نے ان دنوں ہی اپنے اخبار میں رپورٹ کیا تھا جس میں نے ان کی بیگم صاحبہ نے پولیس کو یہ شکایت کی تھی کہ ان کے شوہرِِ نامدار ان کی شبینہ سرگرمیوں میں دخیل ہیں ۔اس لئے ان کو گھر میں داخلے سے روکا جائے۔ آج کل یہ صاحب میاں نواز شریف کے دستِ راست لاہور کے ایک بڑے پراپرٹی ڈویلپر کے دفتر میں لوگوں کو دھمکانے کی ڈیوٹی پر متعین پائے جاتے ہیں ۔کیونکہ یہ ڈویلپر صاحب حسبِ وعدہ لوگوں کو مکانات بنا کر فراہم نہیں کر سکے اور نہ ان کا ارادہ ہے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

اُس وقت ان جوازیوں کی بریگیڈ کے فائیواسٹار نہیں تو فورا سٹار سربراہ لاہور کے ایک انگریزی ہفت روزہ رسالے کے ایڈیٹر ، جناب نجم سیٹھی صاحب بھی تھے ۔ جنہوں نے اپنے رسالے میں کمانڈو کی کتوں والی تصویر لگا کر اپنے لبرل ازم کا پرچار کرتے ہوئے ، مارشل لاء لگانے پر کمانڈو کی خوب خوب پیٹھ ٹھونکی اور نواز شریف اور عمران خان کے نام سے مزاحیہ کالم لکھ لکھ کر انگریزی صحافت میں ان کا مذاق بنا کر کمانڈو کو خوب خوب مدد فراہم کی۔

مگر ’’ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ‘‘کے مصداق امریکامیں نو گیارہ ہو گیا اور فاتح کارگل کو اقتدار میں رہنے کا جوا ز میسر آ گیا۔ اتنے کم عرصے میں کارگل کی جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد بہادر کمانڈو نے امریکی صدر بش کی ایک فون کال پر ہتھیار ڈال کر فوجی تاریخ میں جب ’سنہرے ‘باب کا اضافہ کیا تو اس کے جوازیوں نے اسے قوم سے خطاب کا مشورہ دیا جس کے نتیجے میں فاتحِ کارگل، میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں اور مجھے سب پتہ ہے جیسے شاہکار بیانیوں کے خالق ،جناب بہادرکمانڈو نے قوم کو بتایا کہ ہم نے افغانستان کو تباہ کرنے میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ مفت میں نہیں کیا۔ اس کے جواب میں ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ امریکی صدر ذاتی طور پرمسئلہ کشمیر حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور بھارت پر دباؤ ڈالیں گے(یعنی امریکی حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا)۔ خطے میں بھارت کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ افغانستان میں کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف حکومت برسرِ اقتدار نہیں آئے گی۔

اگر دیکھا جائے تو ان میں سے کچھ بھی ایسے نہیں ہوا جیسے بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب نے قوم سے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا تھا۔اب پندرہ سال بعد بھارت 1999 ء کے مقابلے میں خطے کی زیادہ بالادست قوت ہے۔ اُس دن سے لے کر آج تک افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت ہی برسراقتدار ہے۔ بھلے ہم اپنا سر ہی کاٹ کر کیوں نہ پیش کر دیں، اور ابھی کل ہی امریکی دفترِ خارجہ نے یہ یاد دہانی کروانا ضروری خیال ہے کہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے اور پاکستان اور بھارت کو یہ باہمی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی دفترِ خارجہ کی طرف سے یہ یاد دہانی عین اُس وقت کروائی گئی ہے جب جنرل راحیل شریف صاحب امریکا کے دورے پر ہیں اور ان کے ساتھ جانے والے ان کے ترجمان نے سیاسی حکومت کو اس کی ’اوقات ‘یاد دلانے کے لئے گزشتہ روز ہی مسئلہ کشمیر پر زبان کھولنے کی جسارت کی ہے۔ امریکیوں نے جرنیل کی امریکامیں موجودگی کے دوران ہی حساب بے باق کرنا پسند کیا۔

اب آتے ہیں دوسرے صاحب کی طرف ۔ بھارت ،آسٹریلیا اور برطانیانے جب کرکٹ پر اپنی اجارہ دار ی قائم کرنے اور پاکستان کو اس کھیل میں مزید الگ تھلگ کرنے کے لئے بگ تھری کا فارمولا پیش کیا تو جنوبی افریقا سمیت دنیا کے باقی تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک نے اس کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے پاکستان کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ اُس وقت دو بندے ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ پاکستان کو فوراً بھارت کے سامنے سجدہ کر دینا چاہیے ۔ اُن میں سے ایک توسابق کرکٹ کھلاڑی اور موجودہ کمنٹیٹر جناب رمیزراجہ تھے جن کی مجبوری سمجھ آتی تھی کہ وہ تاج انٹرٹینمنٹ نیٹ ورک نئی دہلی ، بھارت ، جو کہ ٹین ا سپورٹس کے نام سے کھیلوں کے ٹی وی چینل چلانے والی ایک کمپنی ہے، کے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم تھے۔ لیکن دوسرے صاحب جناب نجم سیٹھی تھے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مجلسِ عاملہ کے سربراہ ہونے کے باعث ملک میں کرکٹ کے انتظامی معاملات پر پوری گرفت رکھے ہوئے تھے۔ ان کی طرف سے یہ مژدہ جان فزا سنایا گیا کہ ہم نے بہت باعزت معاہدہ کیا ہے اور بھارت اس معاملے پر ہماری مدد (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ووٹ ) کے بدلے ہم سے 2022 ء تک چھ عدد کرکٹ سیریز کھیلے گا۔

بھارت کی طرف سے کرکٹ سیریز سے انکار کافون آیا تو نجم سیٹھی نے بھی فوراً بیان داغ دیا کہ ’’پاکستا ن کو بھارت سے کرکٹ سیریز نہیں کھیلنی چاہیے‘‘

جب پہلی سیریز کی باری آئی تو بھارت کی طرف سے آواز آئی کہ کیسی سیریز اور کیسا معاہدہ؟ ہاں اگر موڈ ہے تو ہماری طرف آ کر کھیل لو۔ دراصل کسی بھی پاک بھارت کرکٹ سیریز کا مطلب ہوتا ہے کہ بیسیوں ارب روپے کی آمدن ۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر یہ سیریز متحدہ عرب امارات میں ہوتی ہے تو اس کی ساری آمدن پاکستان کو ملے گی جو بلاشبہ دس ارب روپے سے زائد ہو گی ۔ اور اگر ہم یہ سیریز شاہد آفریدی جیسے عقلِ کل حضرات کے کہنے پر بھارت میں کھیلنے چلے جاتے ہیں تو بھارت میں کرکٹ بورڈ کے مروجہ اصولوں کے مطابق اس کی آدھی آمدنی تو وہاں کی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشن کو چلی جائے گی اور باقی آدھے میں سے بھارتی کرکٹ بورڈ اپنا حصہ کی کٹوتی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو دے گا۔ ظاہر ہے بنیا گھاٹے کا سودا تھوڑا ہی کرے گا۔

آپ مشرف اور سیٹھی صاحب کے طریقۂ واردات کی یکسانیت دیکھیں کہ جب کمانڈو مشرف صاحب کی علاقائی اجارہ داری اور مسئلہ کشمیر والے جھوٹ کا پول کھلا تو انہوں نے ایک بیان دیا کہ ’’میں بھارت سے کہوں گا کہ دفع ہو جاؤ‘ (لے آف والا بیان تو آپ کو یاد ہی ہو گا) اور آپ کو یاد ہو گا کہ اس پر جوازی چمونوں نے کیا اچھل اچھل کر داد دی تھی۔ کچھ ایسا ہی نجم سیٹھی صاحب نے کیا ہے کہ جیسے ہی بھارت کی طرف سے کرکٹ سیریز سے انکار کا فون آیا توفوراً بیان داغ دیا کہ ’’پاکستا ن کو بھارت سے کرکٹ سیریز نہیں کھیلنی چاہیے‘‘۔ اور پاکستان قوم ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کے مصداق اُس گیدڑ سنگھی کی تلاش میں ہے جس کے باعث میاں نواز شریف ایک وقت میں اپنے ناپسندیدہ ترین شخص پر ، اب تمام تر حکومتی اور ملکی وقار داؤ پر لگانے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔

دیکھ لیں ہمارے ان دونوں سیکولر لبرل حضرات کے طریقۂ واردات میں کیا یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اور شاید یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بھی نہیں ہو رہا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر