وجود

... loading ...

وجود
وجود

”ایک دن ہم بھی بہت یاد کیے جائیں گے“

منگل 22 ستمبر 2015 ”ایک دن ہم بھی بہت یاد کیے جائیں گے“

iqbal-azeem

معروف شاعر اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔اُن کے والدسید مقبول عظیم کا تعلق سہارن پور سے تھا۔ خود لکھنؤ اور اودھ میں پروان چڑھے ۔لکھنؤ یونیورسٹی سے 1934ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ پھر آگرہ چلے گئے جہاں سے 1943ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔اُنہیں ڈھاکا یونیورسٹی سے ریسرچ اسکالر شپ ملی اور ’’ٹیچرز ٹریننگ کالج ، لکھنؤ‘‘ سے تدریسی تربیت بھی حاصل کی۔اقبال عظیم نے باقاعدہ تدریس کا آغاز’’گورنمنٹ جوبل کالج ، لکھنؤ ‘‘ سے کیا۔ساڑھے گیارہ برس یوپی کے سرکاری مدارس میں پڑھاتے رہے ۔جولائی 1950ء میں مشرقی پاکستان آگئے اور تقریباً بیس برس تک یہیں پر سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے عزیز و اقارب کے پاس کراچی تشریف لے آئے ۔اُنہوں نے اپنی بے نگاہی کا ماجرا بھی اپنے ایک شعر میں خود ہی بیان کر دیا ہے :

مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
جو دیدہ ور ہیں اُنہیں بھی نظر نہیں آتا

اقبال عظیم کراچی آنے کے بعد 1965ء تا 1970ء سندھ کے صوبائی سیکریٹریٹ میں ایک تحقیقاتی افسر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ۔

اردو شاعری کا آغاززمانہ طالب علمی سے ہی کیا ۔نعت نگاری میں آپ نے خصوصی مقام پایا۔ شاعری کا پہلا مجموعہ ’’ مضراب‘‘ 1975ء میں شایع ہوا۔اقبال عظیم کا دوسرا مجموعہ نعتوں پرمشتمل “قاب قوسین” 1977ء میں منظرِ عام پر آیا۔ تحریکِ پاکستان کی معروف شخصیت اورعظیم اردو شاعر حسرتؔ موہانی سے آپ کی گہری دوستی تھی۔پروفیسر اقبال عظیم اردو ، ہندی،عربی،فارسی اور بنگلہ زبانوں کے ماہر تھے ۔1970ء کے بعدمستقل کراچی ہی میں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ 22 ستمبر 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔

اقبال عظیم کی نعتیہ شاعری کے چند نمونے

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ
کہاں میں اور کہاں اُس روضئہ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ


جہاں روضۂ پاک خیر الوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
محمدؐ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحب قاب قوسین ٹھہرے
بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی ، یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو دامن میں اپنی چھپا لے ، جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعا دے
اسے اور کیانام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
شفاعت قیامت کی تابع نہیں ہے ، یہ چشمہ تو روز ازل سے ہے جاری
خطا کار بندوں پہ لطف مسلسل شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں ، یہ جرات نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے


اقبال عظیم کی غزل گوئی کی چند جھلکیاں

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ بُرا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمن ِ جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستان ِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزم خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مجھے اس گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خون ِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا


وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
کفِ دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹُونا، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ حرفِ تکلّم، نہ سعیِ تخاطب، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی
وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی
نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حُسنِ سادہ مثالی مثالی، جوابِ شمائل فقط لاجوابی
وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش نہ اِذنِ گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی
یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی
کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسّم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی
وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی
وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم، نہ دستِ حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر