وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان امن: پاکستانی مقتدرہ کا اصل امتحان

اتوار 06 ستمبر 2015 افغان امن: پاکستانی مقتدرہ کا اصل امتحان

general-raheel-ashraf-ghani

وزیر اعظم نواز شریف اور مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر افغانستان میں قیامِ امن کے لئے اپنا کردار جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی نوکر شاہی کے لئے افغانستان میں قیام ِ امن اور وہاں متحارب گروہوں میں ایک نمائندہ اجتماعی نظم کا قیام ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مسلسل جنگ نے پورے افغانستان کو ایک کھنڈر میں بدل دیا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ افغان عوام آئے دن کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی مسلسل بڑھتی تعداد ایک اور طرح کے المئے سے گزر رہا ہے۔ طالبان کی ستمبر ۱۹۹۶ء میں کابل پر عملداری قائم ہونے کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔طالبان ایک کامیاب حکومت کی بنیاد رکھ کر اپنی پیش رو جہادی تنظیموں کی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔طالبان نے ایک طرف شریعت کی سخت گیر تعریف کے ساتھ ایک جبری ماحول پیدا کردیا تو دوسری جانب عالمی برادری نے اُسامہ بن لادن اور دیگر جہادی تنظیموں کی حمایت پر طالبان کو نہ صرف الگ تھلگ کر دیا بلکہ اُن پر ادویات اور غذائی اجناس کی فراہمی تک پر پابندی لگادی۔اس دوران میں افغانستان کے پڑوسی ممالک نے یہاں اپنی مداخلت جاری رکھی۔یہاں تک کہ روس بھی اس مداخلت میں برابر ملوث رہا۔طالبان مخالف باغیوں کو اسلحہ ، گولہ بارود اور دیگر امداد فراہم کی جاتی رہیں، اگر چہ یہ مخالفین سکڑتے سکڑتے صرف پنج شیر تک ہی محددو رہ گئے تھے، مگر اس مسلسل امداد کے باعث جنگ کے فوری خاتمے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔

امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ایک جنگ کے ذریعے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر عالمی برادری نے ۲۰۰۱ء میں بون کانفرنس کے ذریعے ایک جامع اور نمائندہ سیاسی نظم قائم کرنے اور جنگ کے خاتمے کی نوید دی۔تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ ایک دکھاوے کے مسلسل انتخابات کے ذریعے حامد کرزئی کے صدر بن جانے کے باوجود حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ طالبان اور دیگر مسلح مزاحمتی تنظیموں کی کارروائیاں زور پکڑتی گئیں۔یہاں تک کہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کا غرور خاک میں مل گیااور وہ مکمل شکست سے دوچاہو ئے۔امریکا نے دسمبر ۲۰۱۴ء تک اپنے تمام فوجی دستے افغانستان سے واپس بُلائے۔اور وہاں سے اپنی جنگی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔تاہم اُس نے افغان حکومت کے ساتھ دوطرفہ معاہدۂ امن کی رو سے اپنے کئی فوجی دستوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔عالمی برادری ، امریکا اور مغربی طاقتوں نے افغانستان میں قیامِ امن کے لئے متعدد کوششیں کی ۔ان طاقتوں نے ایک طرف’’ افغان ہائی پیس کونسل‘‘ کی حمایت کے ذریعے مسلح مخالفین کو لڑائی ترک کرنے اور اُنہیں افغان آئین کے تحت زندگی گزارنے کی غرض سے سرنڈر کرنے پر اُبھارا۔چنانچہ کونسل نے اس میں کروڑوں ڈالر پھونک ڈالے۔مگر یہ پیسے امن کے حقیقی عمل پر خرچ ہونے کے بجائے بدعنوان افغان اہلکاروں کی جیبوں میں چلے گئے۔اس کے علاوہ جرمنی، ناروے، فرانس، انگلینڈ اور متعدد دیگر یورپی ممالک بھی افغان عمل کے نام پر بروئے کار رہے۔مگر کسی کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔کیونکہ حکومت کی اہم ترین مخالف تنظیم طالبان نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔مغربی طاقتوں اور افغان حکومت نے اپنا من پسند منصوبہ کامیاب کرنے کے لئے طالبان تحریک کو ایک طرف دھکیل کر طالبان کے نمائندوں کے نام پر کچھ اجنبی چہروں کو سامنے لانے کی کوششیں کی۔لیکن ان چہروں کی پشت پر کوئی مسلح قوت نہ تھی اس لئے یہ امن منصوبے میں مطلوبہ جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ مغربی طاقتوں نے آخری حد پر جاکر طالبان تحریک کی قیادت میں ہی پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی اور اُن میں سے ایک دھڑے کو ساتھ ملانے کے منصوبے بنائے۔ مگر دیگر کوششوں کی طرح اس نے بھی ناکامی کا منہ دیکھا۔

عالمی برادری اور کابل کے سرکردہ لوگوں کاخیال ہے کہ پاکستان نے طالبان پر اپنے اثرورسوخ کے حوالے سے جو دعوے کئے ہیں ، وہ مبالغے پر مبنی ہیں

قطر میں طالبان کا رابطہ دفتر کھلنے کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب بین الاقوامی برادری آسانی سے اصلی طالبان سے رابطہ کر سکیں گے۔اور یوں قیامِ امن کے حوالے سے طالبان سے جو عدمِ تعاون کی شکایت کی جارہی تھی وہ جاتی رہے گی۔تاہم قطر دفتر کے فعال کردار میں کچھ علاقائی طاقتوں نے روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔اُن سے تعاون کے بجائے مخالفت کی گئی۔قطر دفتر کی مخالفت کے ضمن میں دیگر ممالک کی بہ نسبت پاکستان سے زیادہ شکایتیں کی جاتی تھیں۔چینی حکومت سے طالبان کے روابط قطر دفتر کے توسط سے شروع ہوئے تھے۔تاہم اطلاعات کے مطابق پاکستان بعد میں اِن روابط کو اپنے توسط سے جاری رکھنے پر مُصر تھا۔چنانچہ چین جاتے ہوئے طالبان وفد کے سفر میں مبینہ طور پر مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں۔یہاں تک کہ پاکستان میں مقیم طیب آغا کے دو بھائیوں کو پاکستانی اہلکاروں نے اُٹھا کر قید بھی کرلیا۔عالمی برادری کا خیال تھا کہ پاکستان یہ سب کچھ افغان معاملے کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے کررہا تھا۔اُن حلقوں میں یہ تبصرے ہورہے تھے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثرورسوخ کی بدولت افغان امن کے عمل میں ایک قابلِ لحاظ کردار کا خواہاں ہے۔عالمی برادری کو طالبان پر پاکستانی اثر کایقین تھا۔اور شاید وہ اِسی اثر کی بدولت پاکستان کو امن کے عمل میں ایک مناسب کردار بھی دینے پر رضامند تھی۔چنانچہ افغان صدر اشرف غنی نے انتخابی جھمیلوں ، قومی انتخاب کی حکومت اور دیگر بنیادی اُمور سے فراغت کے بعد امن عمل پر توجہ مرکوز کر دی۔اور اِس ضمن میں پاکستان کو کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔

پاکستان ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی وجہ سے صدمے کی کیفیت میں تھا۔اور حکومت نے ’’قومی ایکشن پلان‘‘ کی رو سے پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے تھے۔توقع یہ کی جارہی تھی کہ پاکستان جس تیزی سے اپنے ہاں دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہا ہے ، اُسی تیزی سے وہ افغان امن کے عمل میں بھی تعاون کرے گا۔تاہم ایسا عملاً نہ ہوسکا۔ پاکستان نے اپنے تئیں طالبان قیادت کو افغان حکومت سے مذاکرات پر رضامند کرنے کی بہتیری کوششیں کی۔ یہاں تک کہ اُنہیں صرف ایک بار مذاکرات میں شریک ہوکر مستقل بائیکاٹ کرنے کی بھی اپیل کی۔مگر طالبان قیادت نے پاکستان کی خواہشات کے برعکس اپنی ترجیحات اور اپنے وقت پر مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ طالبان حکمت کاروں کے نزدیک یہ وقت مذاکرات کے لئے موزوں نہیں تھا، لہذا اُنہوں نے یہ کہہ کر خود کو الگ تھلگ کر لیا کہ مذاکرات کا اختیار قطر دفتر کو دے دیا گیا ہے۔ وہ جس وقت اور جہاں چاہیں مذاکرات کر سکتے ہیں۔چین کے شہر ارومچی اور بعد میں پاکستان کے پر فضامقام مری میں طالبان نمائندوں کے نام پر جو لوگ مذاکرات میں شریک ہوئے، اُن کے بارے میں اب یہ خبریں مل رہی ہیں کہ وہ درحقیقت طالبان کے قائد ملا اختر منصور کی رضامندی کے بغیراور محض پاکستانی اداروں کے دباؤ میں شریک ہوئے تھے۔عالمی حلقوں اور یہاں کابل میں بھی اب یہ تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام نے بین الاقوامی برادری کے سامنے طالبان پر اثرورسوخ کی کمّیت اور کیفیت کے حوالے سے مبالغہ کیا ہے۔اور اس ضمن میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بیانات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو طالبان پر اپنے اثرورسوخ کے حوالے سے اب اپنی حیثیت کا اندازا ہوچکا ہے اور عالمی برادری بھی پاکستانی اثرورسوخ کے حوالے سے اپنے اندازوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس دوران میں طالبان کے نئے امیر کے انتخاب سے اس تزویراتی کھیل کی نوعیت یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ ملا اختر منصور ایک مقتدر اور خود مختار رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔کابل میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مری مذاکرات میں شرکت کرنے والے پاکستان کے’’ نمائشی طالبان ‘‘(یہ اصطلاح حکومت کے اہم ادارے کے ایک ذمہ دار نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے استعمال کی)ایک کمزور اور ناراض دھڑے میں شامل ہو کر اپنی رہی سہی حیثیت بھی گنوا چکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی مقتدرہ ، طالبان کے کسی ایک دھڑے پر سودے بازی کے بجائے اُن کے حقیقی مرکز کی طرف رجوع کریں،اُن سے اپنے اختلافات کاخاتمہ کرکے اعتماد میں لیں اور ایک بہتر انداز میں افغان مصالحتی عمل کا حصہ بننے پر راضی کریں۔بلاشبہ یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر خود پاکستان کے طویل المیعاد ریاستی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ازبس ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں


افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...

افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم وجود - پیر 21 مارچ 2022

افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمد اشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا وجود - بدھ 23 فروری 2022

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمد اشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا

افغان طالبان کی پوسٹرز کے ذریعے خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب، شہریوں کے ملے جلے جذبات وجود - اتوار 09 جنوری 2022

افغان طالبان کی مذہبی پولیس نے دارالحکومت کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیے جس میں افغان خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ طالبان کی جانب سے خواتین سے متعلق عائد کی گئیں حالیہ متنازع پابندیوں میں سے ایک ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پوسٹر، جس میں ایک چہرے کو برقع سے ڈ...

افغان طالبان کی پوسٹرز کے ذریعے خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب، شہریوں کے ملے جلے جذبات

بیلاروس کے صدر2021کے کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار وجود - بدھ 29 دسمبر 2021

آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی)نے سال 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست جاری کردی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر جی لوکاشینکو کو منظم مجرمانہ سرگرمیوں اور بدعنوانی کو آگے بڑھانے پر 2021کا کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار دیا گ...

بیلاروس کے صدر2021کے کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وجود - هفته 18 دسمبر 2021

حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ

اشرف غنی کے کابل چھوڑنے سے قبل پاکستان سے فون کال آئی تھی، امریکی میگزین وجود - بدھ 15 دسمبر 2021

پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج اور فون کال سے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب، سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔امریکی میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوئوں کے کابل پر قبضے والے روز، 15 اگست کو تقریبا ایک...

اشرف غنی کے کابل چھوڑنے سے قبل پاکستان سے فون کال آئی تھی، امریکی میگزین

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا وجود - پیر 15 نومبر 2021

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں  چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی وجود - هفته 13 نومبر 2021

2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی

محکمہ خارجہ، دفاع افغانستان سے متعلق معلومات چھپا رہے ہیں، امریکی نگراں ادارہ وجود - اتوار 31 اکتوبر 2021

امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون پر الزام عائد کیا وہ افغانستان کی سابق حکومت اور فوج کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی جانب سے فراہم کرد...

محکمہ خارجہ، دفاع افغانستان سے متعلق معلومات چھپا رہے ہیں، امریکی نگراں ادارہ

امریکا جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان سے مذاکرات کئے،زلمے خلیل وجود - بدھ 27 اکتوبر 2021

سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔اشرف غنی حکومت کے افراد کو نئی حکومت میں شامل کیے جانے کا امکان تھا مگر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے سے سب ختم ہو گیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں زل...

امریکا جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان سے مذاکرات کئے،زلمے خلیل

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر